امریکی صدر براک اوباما کی جانب سے پیر کے روز آئندہ سال 2012ء میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کا باقاعدہ اعلان کردیا گیا ہے۔ گوکہ گزشتہ چند ماہ کے دوران آنے والی عالمی و داخلی تبدیلیوں کے باعث صدر اوباما کے دوبارہ منتخب ہوجانے کی قیاس آرائیوں کو تقویت ملی ہے، تاہم اب بھی ملکی معاشی صورتِ حال اورخارجہ پالیسی سے متعلق کئی اہم معاملات ایسے ہیں جو صدر اوباما کی بطورِ صدرِ امریکہ دوبارہ منتخب ہونے کی کوششوں کی راہ میں حائل ہوسکتے ہیں۔
پیر کےروز انتخابی مہم کے سلسلے میں جاری کیے گئے پہلے ویڈیو پیغام میں صدر اوباما نے اپنے ووٹرز سے آئندہ سال ہونے والےانتخابات پر توجہ اور کوششیں مرکوز کرنےکی اپیل کی۔
داخلی سطح پر صدر اوباما کی سیاسی قبولیت کی سطح میں گزشتہ سال نومبر کے بعد سےبہتری دیکھنے میں آئی ہے جب کانگریس کےوسط مدتی انتخابات میں ری پبلکنز نے اکثریتی ووٹ لے کر ایوانِ نمائندگان کا کنٹرول حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ سینیٹ میں ڈیموکریٹس کی اکثریت کو بھی محدود کردیا تھا۔
نومبر کے بعد کیے جانے والے مختلف عوامی جائزوں اور سرویز میں صدر اوباما کو 50 فیصد کے لگ بھگ مقبولیت حاصل رہی ہے اور کئی ماہرین انہیں اگلےسال کےصدارتی انتخابات میں اپنے اس ری پبلکن حریف کے مقابلے میں مضبوط قرار دے رہے ہیں جس کا انتخاب ہونا ابھی باقی ہے۔
تاہم 'کوئن پیاک یونیورسٹی' سے وابستہ عوامی جائزوں کے ماہر پیٹر برائون کے مطابق صدر اوباما کی ریٹنگ میں گزشتہ کچھ دنوں کے دوران کمی آئی ہے۔ لیکن ان کے بقول آنے والے مہینوں میں انتخابی مہم جیسے جیسے زور پکڑے گی عوام ان کی جانب زیادہ متوجہ ہوسکتے ہیں۔
ماضی میں صدارتی انتخابات سے قبل کی جانے والی امیدواران کی ریٹنگ اور داخلی معیشت کےحوالے سے امریکی عوام کی آراء کا براہِ راست تعلق رہا ہے۔
گزشتہ ہفتے جاری کیے گئے اعدادو شمار کے مطابق امریکہ میں بے روزگاری کی شرح میں مسلسل کمی آرہی ہے اور اس وقت یہ شرح 8ء8 ہے جو گزشتہ دو سال میں کم ترین ہے۔ اس رپورٹ کو صدر اوباما کی دوبارہ منتخب ہونے کی امیدوں کیلیے ایک اچھی خبر قرار دیا جارہا ہے۔
واشنگٹن کے 'بروکنگز انسٹیٹیوٹ' سے منسلک صدارتی امور کے ماہر اسٹیفن ہیس سمجھتے ہیں کہ امریکہ کے آئندہ صدارتی انتخابات پر اثر انداز ہونے والا سب سے اہم معاملہ ملک میں روزگار کی صورتِ حال ہی ہوگا۔
'یونیورسٹی آف ورجینیا' کے لیری سباٹو بھی کم و بیش اسی رائے کے حامی ہیں جن کے بقول آئندہ سال کے انتخابات کا تعین اس بات پر ہوگا کہ امریکی ووٹرز صدر اوباما کی معاشی پالیسیوں کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ ان کے بقول "رائے شماری کے وقت ووٹرز یہ نہیں پوچھیں گے کہ معیشت خستہ حال یا ترقی یافتہ کیوں ہے، بلکہ وہ اپنے ووٹ کی صورت میں صدر اوباما کو معیشت کی اس صورتِ حال کا کریڈٹ یا الزام دینگے"۔
تاہم لیبیا کی موجودہ صورتِ حال، مشرقِ وسطیٰ میں جاری سیاسی محاذ آرائی اور رواں سال جولائی سے افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کے عمل کا آغاز خارجہ پالیسی سے متعلق ایسے عوامل ہیں جو کسی نہ کسی طور پر صدر اوباما کی انتخابی مہم پر بھرپور اثر ڈال سکتے ہیں۔
سیاسی تجزیہ کار چارلی کک سمجھتے ہیں کہ صدر اوباما 2012ء میں اپنے دوبارہ انتخاب کی مہم سابق صدر رونالڈ ریگن کی کامیاب انتخابی مہم کی روشنی میں ترتیب دینا چاہیں گے جس کی بدولت ریگن 1984ء میں دوبارہ صدر منتخب ہونے میں کامیاب ہوگئے تھے۔
ان کے بقول صدر اوباما سابق صدر جمی کارٹر کی ان انتخابی غلطیوں کو دہرانے سے بھی پرہیز کرینگے جن کے باعث وہ 1980ء میں دوسری بار صدرِ امریکہ منتخب ہونے میں ناکام رہے تھے۔
کک کہتے ہیں، "جمی کارٹر کے دور ِصدارت میں یہ تاثر پایا جاتا تھا کہ عالمی معاملات ان کے قابو میں نہیں رہے اور وہ ان عالمی تبدیلیوں کے سامنے بظاہر بے بس نظر آتے تھے جس کا خمیازہ انہیں 1980ء کے انتخابات میں بھگتنا پڑا۔ صدر اوباما یقیناً اپنے بارے میں یہ تاثر دینا نہیں چاہینگے۔ ان کی کوشش ہوگی کہ ان کے ساتھ رونالڈ ریگن والا معاملہ ہو جنہیں عالمی و داخلی محاذ پہ بہت سی ناکامیوں کے باوجود امریکہ کی معاشی صورتِ حال میں بہتری کا کریڈٹ دیا گیا اور اسی کے باعث انہیں دوبارہ منتخب ہونے میں کامیابی ملی"۔
2012ء کے انتخابات میں صدر اوباما کے مقابلے کیلیے درجن بھر ری پبلکن امیدوار میدان میں اترنے کا سوچ رہے ہیں لیکن اب تک کسی ایک نے بھی باقاعدہ طور پر اپنے امیدوار ہونے کا اعلان نہیں کیا ہے۔ تجزیہ کار لیری سباٹو کہتے ہیں کہ ری پبلکن کی اس سستی کا فائدہ صدر اوباما کو پہنچ سکتا ہے جو کسی حریف کی عدم موجودگی میں اپنی انتخابی مہم کیلیے بہتر میڈیا کوریج حاصل کرنے کے علاوہ اپنی مہم کیلیے زیادہ فنڈز بھی اکٹھا کرسکتے ہیں۔
تاریخی حقائق بھی صدر اوباما کو دوبارہ انتخاب کیلیے فیورٹ قرار دیتے ہیں تاہم اس بنیاد پہ کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جاسکتی۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد سے اب تک صرف دو منتخب امریکی صدور – 1980ء میں جمی کارٹر اور 1992ء میں جارج ایچ ڈبلیو بش - کو دوسری مدت کیلیے اپنی انتخابی مہم میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔