امریکہ کے صدر براک اوباما نے اعلان کیا ہے کہ دنیا کی سات بڑی معاشی طاقتوں نے یوکرین میں مداخلت جاری رکھنے کی پاداش میں روس پر عائد اقتصادی پابندیاں برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
پیر کو جرمنی کے شہر کروئن میں 'جی-7' ممالک کے دو روزہ سربراہی اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہ جب تک روس مشرقی یوکرین میں جنگ بندی کے معاہدے کی خلاف ورزیاں جاری رکھے گا اس کے خلاف پابندیاں برقرار رکھی جائیں گی۔
انہوں نے کہا کہ ماسکو پر پابندیاں برقرار رکھنے کے معاملے پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے مابین مکمل اتفاق ہے۔
امریکی صدر نے کہا کہ 'جی-7' ممالک نے واضح کردیا ہے کہ اگر ضرورت پڑی تو وہ روس کے خلاف مزید پابندیاں عائد کرنے سے بھی گریز نہیں کریں گے۔
صدراوباما نے صحافیوں کو بتایا کہ دو روزہ اجلاس اور اس دوران مختلف ملکوں کے سربراہان کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں میں ایران کے جوہری پروگرام سمیت عالمی حالات پر سیر حاصل گفتگو ہوئی ہے۔
منگل کو اجلاس کے دوسرے اور آخری روز رہنماؤں نے ایران کے جوہری پروگرام پر جاری مذاکرات، داعش اور بوکو حرام سے نبٹنے کے حکمتِ علمی، ماحولیاتی تبدیلی اور توانائی سمیت مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا۔
'جی-7' کا یہ مسلسل دوسرا سالانہ سربراہی اجلاس تھا جس میں روس کے صدر ولادی میر پیوٹن کو شرکت کی دعوت نہیں دی گئی تھی۔
اجلاس کی میزبان جرمن چانسلر اینگلا مرخیل نے اجلاس سے قبل واضح کیا تھا کہ یوکرین کے علاقے کرائمیا کے روس کے ساتھ الحاق اور یوکرین میں جاری روسی مداخلت کے خلاف بطور احتجاج صدر پیوٹن کو اجلاس میں شرکت کی دعوت نہیں دی گئی ہے۔
سربراہی اجلاس کا مقصد دنیا کی سات بڑی معاشی طاقتوں کے ما بین تجارت اور معاشی تعاون پر تبادلہ خیال کرنا ہوتا ہے تاہم اجلاس کے شرکا اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بین الاقوامی سیاست سمیت دو طرفہ دلچسپی کے بیشتر امور پر بھی گفتگو کرتے ہیں۔
'جی-7' کے رکن ملکوں میں امریکہ، جرمنی، برطانیہ، فرانس، اٹلی، کینیڈا اور جاپان شامل ہیں جب کہ روس کی شمولیت کے بعد اس تنظیم کو 'جی-8' کہا جاتا ہے۔
جرمنی میں ہونےو الے سالانہ اجلاس میں سات ملکوں کے سربراہان کے علاوہ کئی دیگر اتحادی ممالک کے سربراہان اور اعلیٰ نمائندے بھی شریک تھے۔