امریکہ کے صدر براک اوباما نے پیرس میں دہشت گرد حملوں کے بعد امریکہ کی جانب سے شدت پسند تنظیم داعش کے خاتمے کے لیے اپنی کوششیں دگنی کرنے کا اعلان کیا ہے۔
اتوار کو ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان کے ساتھ ملاقات کےبعد صحافیوں سے گفتگو کرتےہوئے امریکی صدر نے اعلان کیا کہ وہ جمعے کو پیرس میں ہونے والے حملوں کے ذمہ داران کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کےلیے فرانس کی حکومت کے ساتھ ہر ممکن تعاون کریں گے۔
امریکہ اور ترکی کے صدور کے درمیان یہ ملاقات ترکی کے ساحلی شہر انطالیامیں ہوئی جہاں دنیا کی 20 بڑی معیشتوں کی نمائندہ تنظیم 'جی-20' کا سربراہی اجلاس ہورہا ہے۔
ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے صدر اوباما نے کہا کہ امریکہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کرشام کے تنازع کے پرامن تصفیے اور مشرقِ وسطیٰ سے داعش کے مکمل خاتمے کی کوششیں کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ داعش ایک ایسی قوت بن چکی ہے جس نے انقرہ سے پیرس تک لوگوں کو دکھ اور تکلیفوں میں مبتلا کر رکھا ہے اور اس کا خاتمہ ضروری ہے۔
امریکی صدر نے فرانس کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے جمعے کی شب پیرس میں ہونےو الے خود کش حملوں اور فائرنگ کے واقعات میں 129 افراد کی ہلاکت کی مذمت کی۔
انہوں نے کہا کہ گمراہ نظریات کی بنیاد پر معصوم انسانوں کی جان لینا صرف فرانس یا ترکی نہیں بلکہ پوری مہذب دنیا پر حملہ ہے جس کا مل کر مقابلہ کرنا چاہیے۔
اتوار کو 'جی-20' کے سربراہی اجلاس کے پہلے روز کے ایجنڈے میں باہمی تجارت کے فروغ، توانائی کے شعبے میں تعاون اور موسمیاتی تبدیلیوں کے مقابلے کے لیے مشترکہ حکمتِ عملی جیسے معاملات شامل تھے۔ لیکن دنیا کی 20 بڑی اقتصادی طاقتوں کے سربراہان کی اتوار کو بیش تر مصروفیات اور گفتگو کو محور شدت پسند تنظیم داعش کے مقابلے کے لیے کی جانے والی کوششیں رہیں۔
سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے امریکی صدر اتوار کو انطالیا پہنچے تھے جہاں انہوں نے اپنی آمد کے کچھ دیر بعد اجلاس کے میزبان اور ترکی صدر طیب ایردوان سے ملاقات کی۔
واشنگٹن سے روانگی سے قبل صدر اوباما نے وہائٹ ہاؤس میں اپنے قومی سلامتی کے مشیران کے ساتھ ملاقات کی تھی جس میں پیرس حملوں کے بعد کی صورتِ حال پر تبادلۂ خیال کیا گیا تھا۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پیرس حملوں کے بعد امریکی صدر شام اور عراق میں داعش کے خلاف جاری امریکہ کی فضائی کارروائیوں میں تیزی لانے اور ان کا دائرہ کار بڑھانے پر مجبور ہوجائیں گے اور انطالیا میں ہونے والا دو روزہ سربراہی اجلاس امریکی صدر کےلیے اس بارے میں اپنے اتحادیوں اور دیگر عالمی رہنماؤں سے تبادلۂ خیال کا سنہری موقع ہے۔
'جی-20' میں شامل کئی ممالک امریکہ کی قیادت میں قائم اس بین الاقوامی اتحاد کا حصہ ہیں جو شام اور عراق میں گزشتہ ایک برس سے زائد عرصے سے داعش کے ٹھکانوں پر فضائی حملے کر رہا ہے۔
انطالیا میں ہونے والے اجلاس میں فرانس کے صدر فرانسس اولاں کو بھی شریک ہونا تھا لیکن انہوں نے جمعے کو ہونے والے دہشت گرد حملوں کے بعد ترکی کا دورہ منسوخ کردیا تھا۔
ترکی کی حکومت نے سربراہی اجلاس کے لیے سخت حفاظتی انتظامات کیے ہیں ۔ اجلاس جس سیاحتی ساحلی مقام پر ہورہا ہے اس کی حفاظت ترک پولیس اور فوج کے 12 ہزار سے زائد اہلکاروں کے سپرد ہے جب کہ انطالیا کی 24 گھنٹے فضائی نگرانی بھی کی جارہی ہے۔
اجلاس میں دنیا کی 20 بڑی اقتصادی طاقتوں کے علاوہ کئی دیگر ملکوں کے سربراہان بھی خصوصی دعوت پر شرکت کر رہے ہیں جب کہ دنیا بھر سے تین ہزار سے زائد صحافی بھی اجلاس کی کوریج کے لیے انطالیا میں موجود ہیں۔