صدر براک اوباما لاکھوں افراد کے ہجوم کے سامنے آئندہ پیر کو واشنگٹن میں کیپیٹل کی عمارت کے نزدیک اپنے عہدے کی دوسری چار سالہ مدت کا حلف اٹھائیں گے۔
واشنگٹن —
صدر براک اوباما لاکھوں افراد کے ہجوم کے سامنے آئندہ پیر کو واشنگٹن میں کیپیٹل کی عمارت کے نزدیک اپنے عہدے کی دوسری چار سالہ مدت کا حلف اٹھائیں گے۔
چار سال قبل جب صدر نے پہلی بار اپنے عہدے کا حلف اٹھایا تھا، اس کے مقابلے میں اس وقت قومی موڈ نمایاں طور پر مختلف ہے۔
جنوری 2009 میں تقریباً بیس لاکھ امریکی ملک کے پہلے افریقی امریکی صدر کی حلف برداری کا مشاہدہ کرنے جمع ہوئے تھے۔ صدر نے کہا تھا‘‘آ ج کے روز ہم یہاں اس لیے جمع ہوئے ہیں کیوں کہ ہم نے خوف کے بجائے امید کا، اختلاف اور نا اتفاقی کے بجائے مشترکہ مقصد کا انتخاب کیا ہے۔’’
چار سال بعد سیاسی حقائق یہ ہیں کہ حکومت میں پھوٹ پڑی ہوئی ہے، اور ملک بھر میں ووٹرز پر مایوسی طاری ہے۔ اس لیے ملک میں موڈ کسی قدر تبدیل ہو گیا ہے۔
کچھ ووٹرز نے اپنے خیالات کا اظہار کچھ یوں کیا ‘‘میں چاہوں گا کہ صدر ملک کو دوبارہ متحد کرنے کی بات کریں۔ میرے خیال میں ہمیں اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنا چاہیے اور ہر ایک کو قریب لانے کی کوشش کرنی چاہیئے۔’’
ایک دوسرے ووٹر کا کہنا تھا کہ ‘‘میں اس انتظار میں ہوں کہ دونوں پارٹیاں مل جل کر کام کریں اور کسی فیصلے پر پہنچیں بجائے اس کے کہ اس پر جھگڑتے رہیں کہ کون سی پارٹی سب سے اچھی ہے۔ مل جل کر بیٹھو اور پارٹیوں کے بجائے ملک کو ہر چیز پر ترجیح دو۔’’
صدارتی مورخ رچرڈ نارتھن سمتھ کہتے ہیں کہ دوسری مدت کے بہت سے دوسرے صدور کی طرح مسٹر اوباما کے سامنے بھی یہ چیلنج ہے کہ صدارت کی پہلی مدت کے دوران کانگریس کے ساتھ تند و تیز جھڑپوں کے بعد اگلے چار سال کے لیے حمایت کیسے حاصل کی جائے ۔
‘‘چار سال کے بعد بیشتر صدور کو پتہ چل جاتا ہے کہ کوئی بنیادی تبدیلی لانا آسان نہیں ہے۔ چار سال کے عرصے میں کافی گھاؤ لگ چکے ہوتے ہیں، آٹھ سال کا تو کہنا ہی کیا۔’’
ممکن ہے کہ اس سال ملک میں موڈ مختلف ہو، لیکن صدارت کی رسم افتتاح سے قومی اتحاد کو فروغ دینے کا موقع ملتا ہے اور واشنگٹن میں پارٹی بازی اور سیاسی جھگڑوں میں کچھ دیر کے لیے وقفہ آ جاتا ہے۔
لائبریری آف کانگریس کے مارون کرینز برسوں سے صدارت کی افتتاحی تقریبات پر ریسرچ کرتے رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘‘یہ ایسی تقریب ہے جو ہر چار سال بعد ہوتی ہے، جنگ ہو یا امن، چاہے کچھ ہی کیوں نہ ہو رہا ہو، ہر چار سال بعد صدر کی رسمِ حلف برداری ہوتی رہی ہے۔ یہ ایک باقاعدہ تقریب ہے اور یہ اس چیز کا حصہ ہے جسے میں امریکہ کے سول مذہب کا نام دوں گا۔’’
صدر اوباما کی رسمِ حلف برداری کا نقطۂ عروج ان کا افتتاحی خطاب ہو گا ۔ ماضی میں اس تقریر سے صدور کو تاریخ میں اپنی جگہ بنانے کا موقع ملا ہے۔
1933 میں جب عظیم کساد بازاری عروج پر تھی، تو صدر فرینکلن روزویلٹ نے اپنے افتتاحی خطاب میں یہ الفاظ کہے تھے کہ ‘‘مجھے اپنے اس پختہ یقین کا اعادہ کرنے دیجیئے کہ ہمیں صرف ایک ہی چیز سے خوف کھانا چاہیئے اور وہ خوف ہی ہے۔’’
صدر کینیڈی نے 1961 نے جو یادگار تقریر کی تھی اس میں امریکیوں کے نام یہ مشہور اپیل شامل تھی کہ انہیں عوامی خدمت میں حصہ لینا چاہییئے۔
‘‘میرے ہم وطن امریکیو یہ نہ پوچھو کہ آپ کا ملک آپ کے لیے کیا کر سکتا ہے، بلکہ یہ پوچھو کہ آپ اپنے ملک کے لیے کیا کر سکتے ہیں۔’’
ریپبلیکن تجزیہ نگار اسکاٹ فلینکر کہتے ہیں کہ جب صدر اوباما اپنی صدارت کی دوسری افتتاحی تقریر کر رہے ہوں گے، تو وہ سوچ رہے ہوں گے کہ تاریخ میں انہیں کیا مقام ملے گا۔
‘‘اوباما کی نظریں اب اپنے ورثے پر ہیں۔ اب وہ دوبارہ انتخاب کی فکر سے آزاد ہیں اور وہ اپنے قانون سازی کے تفصیلی ایجنڈے کے بارے میں اسٹیٹ آف دی یونین خطاب میں بات کر سکتے ہیں۔ لہٰذا میں سمجھتا ہوں کہ ان کا افتتاحی خطبہ آنے والی نسلوں کے لیے ہوگا۔’’
امریکی آئین میں صدارتی حلف برداری کے بارے میں اس کے سوا اور کچھ نہیں کہا گیا ہے کہ صدر حلف اٹھائیں گے جس میں وہ دیانت داری سے صدر کے عہدے کی ذمہ داریاں پوری کریں گے اور آئین کو برقرار رکھیں گے اس کی حفاظت اور اس کا دفاع کریں گے۔
صدارت کے افتتاح سے متعلق دوسرے رسم و رواج جیسے افتتاحی تقریر، پریڈ اور رقص کی محفلیں، ایسی روایتیں ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ پروان چڑھیں۔
چار سال قبل جب صدر نے پہلی بار اپنے عہدے کا حلف اٹھایا تھا، اس کے مقابلے میں اس وقت قومی موڈ نمایاں طور پر مختلف ہے۔
جنوری 2009 میں تقریباً بیس لاکھ امریکی ملک کے پہلے افریقی امریکی صدر کی حلف برداری کا مشاہدہ کرنے جمع ہوئے تھے۔ صدر نے کہا تھا‘‘آ ج کے روز ہم یہاں اس لیے جمع ہوئے ہیں کیوں کہ ہم نے خوف کے بجائے امید کا، اختلاف اور نا اتفاقی کے بجائے مشترکہ مقصد کا انتخاب کیا ہے۔’’
چار سال بعد سیاسی حقائق یہ ہیں کہ حکومت میں پھوٹ پڑی ہوئی ہے، اور ملک بھر میں ووٹرز پر مایوسی طاری ہے۔ اس لیے ملک میں موڈ کسی قدر تبدیل ہو گیا ہے۔
کچھ ووٹرز نے اپنے خیالات کا اظہار کچھ یوں کیا ‘‘میں چاہوں گا کہ صدر ملک کو دوبارہ متحد کرنے کی بات کریں۔ میرے خیال میں ہمیں اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنا چاہیے اور ہر ایک کو قریب لانے کی کوشش کرنی چاہیئے۔’’
ایک دوسرے ووٹر کا کہنا تھا کہ ‘‘میں اس انتظار میں ہوں کہ دونوں پارٹیاں مل جل کر کام کریں اور کسی فیصلے پر پہنچیں بجائے اس کے کہ اس پر جھگڑتے رہیں کہ کون سی پارٹی سب سے اچھی ہے۔ مل جل کر بیٹھو اور پارٹیوں کے بجائے ملک کو ہر چیز پر ترجیح دو۔’’
صدارتی مورخ رچرڈ نارتھن سمتھ کہتے ہیں کہ دوسری مدت کے بہت سے دوسرے صدور کی طرح مسٹر اوباما کے سامنے بھی یہ چیلنج ہے کہ صدارت کی پہلی مدت کے دوران کانگریس کے ساتھ تند و تیز جھڑپوں کے بعد اگلے چار سال کے لیے حمایت کیسے حاصل کی جائے ۔
‘‘چار سال کے بعد بیشتر صدور کو پتہ چل جاتا ہے کہ کوئی بنیادی تبدیلی لانا آسان نہیں ہے۔ چار سال کے عرصے میں کافی گھاؤ لگ چکے ہوتے ہیں، آٹھ سال کا تو کہنا ہی کیا۔’’
ممکن ہے کہ اس سال ملک میں موڈ مختلف ہو، لیکن صدارت کی رسم افتتاح سے قومی اتحاد کو فروغ دینے کا موقع ملتا ہے اور واشنگٹن میں پارٹی بازی اور سیاسی جھگڑوں میں کچھ دیر کے لیے وقفہ آ جاتا ہے۔
لائبریری آف کانگریس کے مارون کرینز برسوں سے صدارت کی افتتاحی تقریبات پر ریسرچ کرتے رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘‘یہ ایسی تقریب ہے جو ہر چار سال بعد ہوتی ہے، جنگ ہو یا امن، چاہے کچھ ہی کیوں نہ ہو رہا ہو، ہر چار سال بعد صدر کی رسمِ حلف برداری ہوتی رہی ہے۔ یہ ایک باقاعدہ تقریب ہے اور یہ اس چیز کا حصہ ہے جسے میں امریکہ کے سول مذہب کا نام دوں گا۔’’
صدر اوباما کی رسمِ حلف برداری کا نقطۂ عروج ان کا افتتاحی خطاب ہو گا ۔ ماضی میں اس تقریر سے صدور کو تاریخ میں اپنی جگہ بنانے کا موقع ملا ہے۔
1933 میں جب عظیم کساد بازاری عروج پر تھی، تو صدر فرینکلن روزویلٹ نے اپنے افتتاحی خطاب میں یہ الفاظ کہے تھے کہ ‘‘مجھے اپنے اس پختہ یقین کا اعادہ کرنے دیجیئے کہ ہمیں صرف ایک ہی چیز سے خوف کھانا چاہیئے اور وہ خوف ہی ہے۔’’
صدر کینیڈی نے 1961 نے جو یادگار تقریر کی تھی اس میں امریکیوں کے نام یہ مشہور اپیل شامل تھی کہ انہیں عوامی خدمت میں حصہ لینا چاہییئے۔
‘‘میرے ہم وطن امریکیو یہ نہ پوچھو کہ آپ کا ملک آپ کے لیے کیا کر سکتا ہے، بلکہ یہ پوچھو کہ آپ اپنے ملک کے لیے کیا کر سکتے ہیں۔’’
ریپبلیکن تجزیہ نگار اسکاٹ فلینکر کہتے ہیں کہ جب صدر اوباما اپنی صدارت کی دوسری افتتاحی تقریر کر رہے ہوں گے، تو وہ سوچ رہے ہوں گے کہ تاریخ میں انہیں کیا مقام ملے گا۔
‘‘اوباما کی نظریں اب اپنے ورثے پر ہیں۔ اب وہ دوبارہ انتخاب کی فکر سے آزاد ہیں اور وہ اپنے قانون سازی کے تفصیلی ایجنڈے کے بارے میں اسٹیٹ آف دی یونین خطاب میں بات کر سکتے ہیں۔ لہٰذا میں سمجھتا ہوں کہ ان کا افتتاحی خطبہ آنے والی نسلوں کے لیے ہوگا۔’’
امریکی آئین میں صدارتی حلف برداری کے بارے میں اس کے سوا اور کچھ نہیں کہا گیا ہے کہ صدر حلف اٹھائیں گے جس میں وہ دیانت داری سے صدر کے عہدے کی ذمہ داریاں پوری کریں گے اور آئین کو برقرار رکھیں گے اس کی حفاظت اور اس کا دفاع کریں گے۔
صدارت کے افتتاح سے متعلق دوسرے رسم و رواج جیسے افتتاحی تقریر، پریڈ اور رقص کی محفلیں، ایسی روایتیں ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ پروان چڑھیں۔