صدر اوباما جنوبی کوریا، ملائیشیا اور فلپائن بھی جائیں گے۔
امریکہ کے صدر براک اوباما ایشیا کے چار ملکوں کے دورے پر بدھ کو جاپان پہنچے ہیں۔ اپنے اس دورے میں وہ اتحادیوں کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کریں گے کہ واشنگٹن پیسیفک میں "توازن" برقرار رکھنے کے لیے پرعزم ہے۔
صدر اوباما جنوبی کوریا، ملائیشیا اور فلپائن بھی جائیں گے جہاں چین کی طرف سے جغرافیائی دعوؤں سے پیدا ہونے والی سلامتی کی صورتحال اور شمالی کوریا کا جوہری پروگرام پر تبادلہ خیال مرکزی نقطہ ہو گا۔
اپنے دورے کے آغاز سے قبل اوباما نے جاپان کے اخبار "یومیئوری" کو بتایا تھا کہ امریکہ "ان جزائر پر جاپان کی انتظامیہ کے خلاف کسی بھی یکطرفہ کوشش" کی مخالفت کرتا ہے۔ انھوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ جزائر اس معاہدے میں شامل ہیں جس کے تحت اگر جاپان پر حملہ ہوتا ہے تو امریکہ اس کا دفاع کرے گا۔
اس دورے میں اوباما جاپان کے ساتھ طویل مدت سے تعطل کے شکار آزاد تجارت کے شراکت دار معاہدے ٹرانس پیسفک پر پیش رفت کرنے کی کوشش بھی کریں گے۔
تاہم بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ جاپان کی طرف سے زرعی مصنوعات کی قیمتوں کو کم کرنے میں پس و پیش کے باعث معاہدے پر پیش رفت کے امکانات بہت ہی کم ہیں۔
ٹوکیو سے صدر اوباما سیول جائیں گے جہاں وہ جنوبی کوریا کی صدر پار گیئون ہئی سے شمالی کوریا سے متعلق خدشات پر تبادلہ خیال کریں گے۔ باور کیا جاتا ہے کہ شمالی کوریا ایک اور جوہری تجربہ کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔
امریکی صدر کا اگلا پڑاؤ ملائیشیا ہوگا جہاں وہ وزیراعظم نجیب رزاق سے مذاکرات کے علاوہ عشائیے میں بھی شرکت کریں گے۔ 1966ء کے بعد وہ پہلے امریکی صدر ہیں جو اپنے دور اقتدار میں ملائیشیا کا دورہ کر رہے ہیں۔
اوباما اپنے دورے کے آخری مرحلے میں فلپائن پہنچیں گے۔ یہ ملک بھی جغرافیائی تنازعات کے باعث چین کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی رکھتا ہے اور اسی باعث اس نے واشنگٹن کے ساتھ اپنے فوجی تعاون کو مزید وسعت دی ہے۔
2009ء میں منصب صدارت پر فائز ہونے کے بعد اوباما کا ایشیا کا یہ پانچواں دورہ ہے۔ انھوں نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ بحرالکاہل کے خطے کو ایک بڑی اقتصادی، سفارتی اور فوجی وقت بنانا امریکہ کی ترجیحات میں شامل ہے۔
صدر اوباما جنوبی کوریا، ملائیشیا اور فلپائن بھی جائیں گے جہاں چین کی طرف سے جغرافیائی دعوؤں سے پیدا ہونے والی سلامتی کی صورتحال اور شمالی کوریا کا جوہری پروگرام پر تبادلہ خیال مرکزی نقطہ ہو گا۔
اپنے دورے کے آغاز سے قبل اوباما نے جاپان کے اخبار "یومیئوری" کو بتایا تھا کہ امریکہ "ان جزائر پر جاپان کی انتظامیہ کے خلاف کسی بھی یکطرفہ کوشش" کی مخالفت کرتا ہے۔ انھوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ جزائر اس معاہدے میں شامل ہیں جس کے تحت اگر جاپان پر حملہ ہوتا ہے تو امریکہ اس کا دفاع کرے گا۔
اس دورے میں اوباما جاپان کے ساتھ طویل مدت سے تعطل کے شکار آزاد تجارت کے شراکت دار معاہدے ٹرانس پیسفک پر پیش رفت کرنے کی کوشش بھی کریں گے۔
تاہم بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ جاپان کی طرف سے زرعی مصنوعات کی قیمتوں کو کم کرنے میں پس و پیش کے باعث معاہدے پر پیش رفت کے امکانات بہت ہی کم ہیں۔
ٹوکیو سے صدر اوباما سیول جائیں گے جہاں وہ جنوبی کوریا کی صدر پار گیئون ہئی سے شمالی کوریا سے متعلق خدشات پر تبادلہ خیال کریں گے۔ باور کیا جاتا ہے کہ شمالی کوریا ایک اور جوہری تجربہ کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔
امریکی صدر کا اگلا پڑاؤ ملائیشیا ہوگا جہاں وہ وزیراعظم نجیب رزاق سے مذاکرات کے علاوہ عشائیے میں بھی شرکت کریں گے۔ 1966ء کے بعد وہ پہلے امریکی صدر ہیں جو اپنے دور اقتدار میں ملائیشیا کا دورہ کر رہے ہیں۔
اوباما اپنے دورے کے آخری مرحلے میں فلپائن پہنچیں گے۔ یہ ملک بھی جغرافیائی تنازعات کے باعث چین کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی رکھتا ہے اور اسی باعث اس نے واشنگٹن کے ساتھ اپنے فوجی تعاون کو مزید وسعت دی ہے۔
2009ء میں منصب صدارت پر فائز ہونے کے بعد اوباما کا ایشیا کا یہ پانچواں دورہ ہے۔ انھوں نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ بحرالکاہل کے خطے کو ایک بڑی اقتصادی، سفارتی اور فوجی وقت بنانا امریکہ کی ترجیحات میں شامل ہے۔