امریکی صدر براک اوباما نے منگل کو جاپانی وزیر اعظم شِنزو ایبے کا وائٹ ہاؤس میں خیرمقدم کیا، جو اِن دِنوں امریکہ کے سرکاری دورے پر ہیں۔ دونوں سربراہان نے کہا ہے کہ اُن کے ملکوں کا اتحاد ’کبھی اتنا مضبوط نہیں رہا‘۔
مسٹر اوباما نے کہا ہے کہ امریکہ اور جاپان، جو کبھی جنگ عظیم دوئم میں دشمن رہ چکے ہیں، ’لازوال ساجھے دار‘ اور ’سچے دوست‘ ہیں۔
امریکی رہنما نے وائٹ ہاؤس کے لان میں منعقدہ شان و شوکت سے مزین تقریب میں کہا کہ امریکہ نے ایشیا بحرالکاہل میں اپنی قائدانہ صلاحیت کا اعادہ کیا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ ’وزیر اعظم ایبے عالمی سطح پر جاپان کے نئے کردار کی قیادت کر رہے ہیں۔ مضبوط امریکہ جاپان اتحاد ہی اِن کوششوں کی بنیاد ہے‘۔
مسٹر ایبے نے امریکہ جاپان اتحاد کو ’شاندار‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ عالمی چیلنجوں سے نبردآزما ہونے کے لیے جاپان امریکہ کے ساتھ پیش پیش رہے گا۔
یہ کلمات ادا کرنے سے قبل، دونوں رہنماؤں نے واشنگٹن میں روشن کرنوں والے دِن امریکی فوجیوں کے دستے کا معائنہ کیا، اور پھر تقریب میں شریک سینکڑوں افراد میں سے متعدد کے ساتھ ہاتھ ملائے۔
وائٹ ہاؤس میں، دونوں سربراہان نے ملاقات کی جس دوران دو طرفہ دفاعی اور معاشی تعاون بڑھانے پر بات چیت متوقع ہے۔
اس ملاقات سے قبل ایبے اور دیگر اعلیٰ جاپانی حکام نے نیویارک میں اعلیٰ عہدیداروں سے ملاقاتیں کیں اور دونوں ممالک کے درمیان دفاعی اتحاد کو مزید مضبوط کرنے پر اتفاق کیا۔ اس اقدام کو چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کے رد عمل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
دفاعی تعاون کے نظر ثانی شدہ رہنما اصول جاپان کے عالمی تنازعات میں وسیع تر کردار کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ نظر ثانی شدہ رہنما اصولوں کے مطابق ٹوکیو کسی تیسرے ملک کے دفاع میں مدد کر سکے گا اور میزائل دفاع، بارودی سرنگوں کی صفائی اور جہازوں کے معائنے میں اس کا کردار مضبوط ہوگا۔
اٹھارہ برسوں میں پہلی مرتبہ امریکہ اور جاپان نے دفاعی تعاون کے رہنما اصولوں پر نظر ثانی کی ہے۔ گزشتہ برس جاپان نے مشترکہ دفاعی کردار کی راہ ہموار کرنے کے لیے اپنے امن پسند آئین کی نئی تشریح کرنے کا فیصلہ کیا تھا جس کے بعد یہ نظر ثانی کی گئی۔
امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’آج کا دن جاپان کے ناصرف اپنے علاقوں بلکہ ضرورت پڑنے پر امریکہ اور دیگر ساتھیوں کے دفاع کی صلاحیت کے قیام کا موقع ہے۔‘‘
جان کیری نے ایک بار پھر یقین دہانی کرائی کہ بحیرہ جنوبی چین میں واقع جزائر جن پر چین اور جاپان دونوں کا دعویٰ ہے وہ بھی اس مشترکہ دفاعی معاہدے کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر ان جزائر پر حملہ ہوا تو واشنگٹن پر لازم ہوگا کہ وہ جاپان کی مدد کے لیے آئے۔
اوباما اور ایبے کے درمیاں بات چیت میں ٹرانس پیسفک پارٹنرشپ نامی امریکہ ایشیا آزاد تجارت کے مجوزہ معاہدے پر بھی بات ہوگی۔ اس معاہدے میں 12 ممالک شامل ہوں گے مگر چین ان میں شامل نہیں۔