بروقت منصفانہ تجارتی سمجھوتے عین ملکی مفاد میں: اوباما

اوریگون

صدر اوباما نے کہا کہ امریکہ ایسا ملک ہے جہاں سخت محنت کرنے والے کو اس کا پھل ملتا ہے، شرط منصفانہ مسابقت کی اعلیٰ معیار کا ہے، اور اگر میدان ہموار اور مساوی ہو، تو امریکہ کو کوئی پیچھے نہیں چھوڑ سکتا

بین الاقوامی تجارتی سمجھوتے طے کرنے کے لیے درکار قانون سازی پر زور دیتے ہوئے، امریکی صدر براک اوباما نےکہا ہے کہ اس ضمن میں اگر امریکہ نے تجارت کے اصول طے کرنے میں کوئی کوتاہی کی، تو عین ممکن ہے کہ کوئی دوسرا ملک، بشمول چین، امریکہ سے آگے نکلنے کی کوشش کرے۔

ریاست اوریگون میں ’ایتھلیٹک شو‘ تیار کرنے والے ’نائیک‘ کے بیورٹن کے ہیڈکوارٹرز میں تقریر کرتے ہوئے، اُنھوں نے خاص طور پر ایشیا بحر الکاہل خطے کا حوالہ دیا جہاں تجارت کے وسیع تر مواقع موجود ہیں، جن پر خصوصی دھیان مبذول کرانے کی ضرورت ہے۔

تجارت کے حوالے سے، صدر اوباما نے کہا کہ تساہل کی کوئی گنجائش نہیں، اور امریکی مصنوعات تیار کرنے والوں کو تجارت کے میدان میں ہر صورت میں پیش رفت دکھانی ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ امریکہ ایسا ملک ہے جہاں سخت محنت کرنے والے کو اس کا پھل ملتا ہے، شرط منصفانہ مسابقت کی اعلیٰ معیار کا ہے، اور اگر میدان ہموار اور مساوی ہو، تو امریکہ کو کوئی پیچھے نہیں چھوڑ سکتا۔

اُن کے خطاب کا موضوع تھا: ’نئے جدت پسند، اعلیٰ معیار کے تجارتی سمجھوتے طے ہونے سے کارکنوں کو کیا فوائد میسر آئیں گے، اور اوریگون میں قائم نائیک کی طرح بڑے یا ملک بھر کے دیگر چھوٹے کاروباری اداروں کو نئی منڈیاں کس طرح میسر ہوں گی اور اعلیٰ معیار کے روزگار کے مواقع کیسے پیدا ہوں گے‘۔

نائیک کمپنی کا کہنا ہے کہ اگر ایشیائی ملکوں کے ساتھ مجوزہ تجارتی معاہدے کی منظوری دی جاتی ہے، جسے عرف عام میں ’ٹرانس پیسیفک پارٹنرشپ‘ جانا جاتا ہے، تو امریکہ کے اندر روزگار کے 10000 اضافی مواقع پیدا ہوں گے۔

ایک بیان میں، نائیک کے منتظم اعلیٰ، مارک پارکر نے کہا ہے کہ ’ہم ایسے تجارتی سمجھوتے چاہتے ہیں جو منصفانہ ہوں، جن کے تحت تجارت کے اعلیٰ اصولوں کو مد نظر رکھ کر کاروبار کیا جائے۔ ایسا کرنے سے نائیک جیسے ادارے جدت کے عنصر کو فروغ دینے، ملکی کاروبار کو وسعت دینے اور معاشی شرح نمو میں اضافہ کرنے میں قابل قدر کردار ادا کرسکتا ہے۔

صدر اوباما اس بات کے کوشاں رہے ہیں کہ کانگریس مجوزہ ’ٹریڈ پروموشن اتھارٹی بِل‘ منظور کرتے ہوئے، اُنھیں ’فاسٹ ٹریک‘ کی نوعیت کے اختیارات تفویض کرے، جن کی مدد سے وہ ملکی مفاد میں تجارتی مذاکرات کو تیزی سے آگے بڑھا سکیں۔

ٹرانس پیسیفک سمجھوتے کی مدد سے بحرالکاہل کے ملکوں کے ساتھ ساتھ، یورپی یونین کے ساتھ تجارتی معاہدے کرنے کے لیے ضوابط میسر آ جائیں گے۔ مجوزہ قانون سازی کی بدولت کانگریس کے ارکان کو تجارتی سمجھوتوں کو منظور یا مسترد کرنے کا اختیار تو ہوگا، تاہم وہ اس میں تبدیلیاں نہیں کر پائیں گے۔

اس مجوزہ قانون سازی کی مخالفت محنت اور ماحولیاتی تحاریک سے وابستہ حلقوں اور خود کانگریس میں کچھ ڈیموکریٹس کی جانب سے کی جا رہی ہے، جو عام طور پر اُن کے حامی خیال کیے جاتے ہیں۔