صدر براک اوباما نے دوسری جنگ عظیم کے دوران جوہری حملے کا نشانہ بننے والے جاپانی شہر ہیروشیما کا جمعہ کو دورہ کیا۔ وہ یہاں آنے والے امریکہ کے پہلے صدر ہیں۔
اوباما اور جاپان کے وزیراعظم شنزو ایبے نے ہیروشیما میں یادگار پر پھول چڑھائے اور اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
امریکی صدر کا کہنا تھا کہ لوگوں کے یہاں آنے کا مقصد ایک ایسی خوفناک قوت پر غور کرنا ہے "جو کچھ زیادہ ماضی کی بات نہیں۔۔۔ہم یہاں ان مرنے والوں بشمول ایک لاکھ جاپانی مرد و زن اور بچے، ہزاروں کوریئن اور درجنوں امریکیوں کا افسوس کرنے آتے ہیں۔"
ان کا مزید کہنا تھا کہ تاریخ پر نظر رکھنا سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ "ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ ہم ایسا کیا مختلف کر سکتے ہیں کہ جس سے اس تکلیف کو دوبارہ برداشت کرنے سے بچا جائے۔"
یادگار پر آنے سے قبل صدر اوباما ہیروشیما کے قریب واقع ایواکونی فضائی اڈے پر امریکی اور جاپانی فوجیوں سے ملاقات کی اور انھیں بتایا کہ ان کا دورہ "جنگ عظیم دوئم میں جان کی بازی ہارنے والوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کا ایک موقع ہے۔"
صدر یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ ہیروشیما پر جوہری بم گرانے کے اُس وقت کے امریکی صدر ہیری ٹرومین کے فیصلے پر معذرت نہیں کریں گے۔
جوہری بم کے حملے میں اسی ہزار افراد فوری طور پر ہی ہلاک ہو گئے تھے جب کہ شہر کا نوے فیصد حصہ مکمل طور پر تباہ ہو گیا تھا۔ ہزاروں افراد تابکاری کے باعث بعد میں موت کا شکار ہوئے۔
امریکی صدر اس سے قبل جاپان میں ہی ہونے والی جی سیون ممالک کی دو روزہ کانفرنس میں بھی شریک ہوئے۔
جمعہ کو کانفرنس کے اختتام پر دنیا کے ساتھ بڑی صنعتی قوتوں کے رہنماؤں نے عالمی ترقی کو اپنی "فوری ترجیح" قرار دیتے ہوئے شمالی کوریا، روس اور سمندری تنازعات پر اپنے اپنے تحفظات کا اظہار بھی کیا۔
32 صفحات پر مشتمل مشترکہ اعلامیے میں اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ روزگار کے مواقع سے بھرپور اور معاشرے کے تمام طبقات کی بہتری پر مبنی بین الاقوامی ترقی کو یقینی بنایا جائے گا۔