نیشنل کمیشن آن ہیومن رائٹس کا کہنا ہے کہ اوکاڑہ ملٹری فارمز کا تنازعہ جلد حل ہونے کا امکان ہے۔ پاکستان آرمی نے تسلیم کیا ہے کہ اوکاڑہ ملٹری فارمز کی زمین ان کی ملکیت نہیں بلکہ پنجاب حکومت کی ہے۔ مزارعین کو مسئلہ حل کرنے کے لیے گذشتہ 18 سال سے واجب الادا زمینوں کی بٹائی معاف کرنے پر بھی غور کیا جارہا ہے۔
نیشنل کمیشن آن ہیومن رائٹس کے چئیرمین جسٹس ریٹائرڈ علی نواز چوہان نے وائس آف امریکہ سے گفت گو کرتے ہوئے کہا کہ امکان ہے کہ یہ معاملہ جلد حل ہو جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ 18 سال سے جاری اس تنازع کے حل کے لیے تمام فریقوں نے مثبت رویہ اپنایا ہے۔ کمیشن کا سب سے پہلے مسئلہ انسانی حقوق کا ہے کہ کسی کے بھی بنیادی انسانی حقوق پامال نہ ہوں۔ حالیہ اجلاس میں اس معاملے پر تفصیلی بات چیت ہوئی جس میں فوج کے نمائندے نے یہ تسلیم کیا کہ یہ زمین ان کی نہیں بلکہ پنجاب حکومت کی ہے۔
اس معاملے کی جانچ کرنے والے کمیشن کے ممبر چوہدری شفیق کا کہنا تھا کہ اس پہلو پر بھی غور کیا جا رہا ہے کہ مزارعین کے خلاف درج مقدمات کو واپس لیا جائے اور ان سے قابل وصول 18 برسوں کی فصلوں کی بٹائی بھی معاف کر دی جائے۔ اس پر پاک فوج کے نمائندے نے رضامندی ظاہر کی ہے۔
علی نواز چوہان کا کہنا تھا کہ کمیشن اس بات سے اتفاق کرتا ہے کہ زمین کی ملکیت پنجاب حکومت کی ہو یا آرمی کی، اس پر مزارعین کو مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔ انہیں فصلوں کی بٹائی دینی چاہیے تھی کیونکہ اس کی وجہ سے آرمی پنجاب حکومت کو آبیانہ ادا نہیں کر رہی۔ انہوں نے بتایا کہ مزارعین نے ساتھیوں سے مشاورت کے لیے وقت مانگا ہے۔
اس معاملے پر عوامی ورکرز پارٹی کے فاروق طارق نے وائس آف امریکہ سے گفت گو میں آرمی کی طرف سے حق ملکیت سے دستبرداری کو خوش آئند قرار دیا، لیکن بٹائی کے معاملے پر انہوں نے کہا کہ ہم کسی کو بھی بٹائی نہیں دیں گے۔ ماضی میں تمام سیاسی جماعتوں نے حق ملکیت دینے کے وعدے کیے ہیں جنہیں پورا کیا جانا چاہیے۔
ان زمینوں پر کاشت کرنے والے ایک کسان مجتبیٰ رائے نے کہا کہ ہم سو سال سے اس زمین پر کاشت کر رہے ہیں۔ ہمیں ہمارا حق دیا جائے جو صرف زمین کی ملکیت ہے۔
اوکاڑہ کے ملٹری فارم کا تنازعہ 2000 میں شروع ہوا۔ ملٹری فارم 18000 ایکڑ رقبے پر مشتمل ہے جس میں سے 5000 ایکڑ فوج جبکہ 13000 ایکڑ مزارعین کے پاس تھی۔ زمین کے تنازعے کے باعث انجمن مزارعین کے کئی کارکنوں کے خلاف مقدمات درج کیے گئے اور اب بھی ایک اندازے کے مطابق 80 سے زائد مقدمات زیرالتوا ہیں۔ لیکن امکان ہے کہ معاہدہ طے پا جانے کی صورت میں یہ مقدمات بھی واپس لے لیے جائیں گے۔
نیشنل کمیشن آف ہیومن رائٹس کا آئندہ اجلاس 17 جنوری کو طلب کیا گیا ہے جس میں اس معاملہ پر پیش رفت کا امکان ہے۔