ایران جوہری سمجھوتا، ایک سال بعد بھی عمل درآمد اور شکوک جاری

فائل

آج، یہ معاہدہ نافذ العمل ہے جس کے مختلف اہم عناصر پر واضح نتائج برآمد ہو چکے ہیں، لیکن دونوں فریق کے ذہن میں شکوک و شبہات اب بھی باقی ہیں آیا دوسرا فریق فائدہ نہ اٹھا لے، یا اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام رہے

ایک برس قبل آسٹریا کے شہر ویانا کے ایک پُرتعیش ہوٹل میں ایک اجلاس کے بعد ایران اور چھ عالمی طاقتوں سے تعلق رکھنے والے سفارت کار تھکے ہارے نمودار ہوئے، جس معاملے کے حل کے لیے وہ تقریباً دو سال سے کوششیں کر رہے تھے؛ اس مربوط معاہدے کی رو سے سخت معاشی تعزیرات اٹھائے جانے کے بدلے ایران کے جوہری پروگرام کو محدود کرنے پر سمجھوتا طے پایا۔

آج، یہ معاہدہ نافذ العمل ہے جس کے مختلف اہم عناصر پر واضح نتائج برآمد ہو چکے ہیں، لیکن دونوں فریق کے ذہن میں شکوک و شبہات اب بھی باقی ہیں آیا دوسرا فریق فائدہ نہ اٹھا لے، یا اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام رہے۔

امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے جمعرات کے روز کہا ہےکہ ’’ہمیں کام جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔ اور ہم کام جاری رکھیں گے؛ اور اس مقصد کے لیے ہم نے خاص طور پر ایک سفیر کر مقرر کر رکھا ہے، جس کا روزانہ کے کام کاج میں ایک ٹیم کی قیادت کرنا شامل ہے یہ یقینی بنانے کے لیے کہ سمجھوتے پر عمل درآمد ہو رہا ہے، اور ہماری یہ کوشش رہے گی کہ درپیش آنے والے مسائل کو حل کیا جاتا رہے‘‘۔

صدر براک اوباما نے اس معاہدے کو ایک کامیابی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’’جوہری ہتھیار کے حصول کی ایران کی تمام راہیں بند ہو چکی ہیں‘‘۔

اُنھوں نے کہا کہ یہ معاہدہ جس پر جنوری سے عمل درآمد کا آغاز ہوا اس کی مدد سے ایران کی جوہری ہتھیار تشکیل دینے کی کوششوں کو پیچھے دھکیل دیا گیا ہے، اب اگر وہ سمجھوتے کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اس مقصد کے لیے اُسےدو یا تین ماہ کے مقابلے میں ’’تقریباً ایک سال درکار ہوگا‘‘۔
تاہم، ایک سال قبل امریکہ میں سمجھوتے کے مخالفین ابھی تک اپنی اُسی سوچ پر اڑے ہوئے ہیں کہ اس کی مدد سے ایران مشرق وسطیٰ میں اپنی فوجی سرگرمیاں ترک نہیں کرے گا یا آخر کار جوہری ہتھیار تشکیل دینے کی اُس کی خواہش ختم نہیں ہوگی۔

اڈاہو سے ری پبلیکن پارٹی کے سینیٹر، جیمس رچ نے کانگریس کے ایک پینل کو بتایا کہ ’’یہ سمجھوتا اب بدتر ہوچکا ہے‘‘، یہ کہتے ہوئے کہ ’’ایران غلط کام جاری رکھے ہوئے ہے‘‘، جیسا کہ بیلسٹک میزائل کے تجربات کا سلسلہ جاری رکھنا۔

رچ نے کہا کہ امریکہ کو اس معاہدے پر خود عمل درآمد کرانا ہوگا، یہ اعلان کرتے ہوئے کہ پانچ ملک جو اس سمجھوتے پر اتفاق کرتے ہیں، برطانیہ، چین، فرانس اور روس ’’ہماری مدد نہیں کر پائیں گے‘‘۔

سنہ 2002کے بعد مغربی ملکوں کا یہ شک پختہ ہونے لگا کہ ایران جوہری ہتھیار بنا رہا ہے، جس بات کو ایران نے باربار مسترد کیا۔ اس پر اقوام متحدہ کے علاوہ، امریکہ اور یورپی یونین کی تعزیرات لاگو رہیں تاکہ ایران پر جوہری عزائم جاری رکھنے کے خلاف دباؤ برقرار رہے۔ ایران نے اپنی جوہری سرگرمیاں جاری رکھیں، جس کا زیادہ تر دھیان یورینئیم کی افزودگی پر رہا، جب کہ تعزیرات کے باعث اُس کی معیشت خراب تھی۔

سنہ 2013کے اواخر میں جوہری مذاکرات میں اُس وقت پیش رفت سامنے آئی جب ایران اور چھ عالمی طاقتوں نے مذاکرات کے دوران ایک عبوری سمجھوتا طے کیا، جس کے تحت ایران کی جوہری سرگرمیوں پر کچھ قدغنیں لگیں جب کہ چند تعزیرات میں نرمی آئی۔

مربوط سمجھوتے کے لیے 2014ء کے وسط تک کا وقت دیا گیا۔ لیکن، مذاکرات کے عمل میں، ایسے زیادہ تر معاملات کی طرح، بات چیت میں رکاوٹیں سامنے آئیں جب کہ کئی حتمی تاریخیں پوری نہ ہوسکیں۔ پھر ایک وقت آیا جب ویانا میں تین ہفتے تک حتمی مذاکرات کے دور جاری رہے، جن کے نتیجے میں سمجھوتا طے پایا۔