’نیو یارک ٹائمز‘ نے اب سے ایک برس قبل ہالی ووڈ کی معروف شخصیت ہاروے وائن سٹائن کی طرف سے اُن کے ساتھ کام کرنے والی خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے اور اُن سے زیادتی کرنے کے بارے میں ایک رپورٹ شائع کی تھی۔
اس کے بعد سے زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی بہت سی خواتین جنسی ہراسیت اور جنسی حملوں سے متعلق اپنے ذاتی تجربات کے ساتھ سامنے آ چکی ہیں۔ یہ تحریک ٹویٹر کے ہیش ٹیگ #MeToo کے نام سے مشہور ہو گئی۔ اس MeToo تحریک نے عوامی ضمیر کو جھنجھوڑنے میں اہم کردار ادا کیا۔
حال ہی میں امریکی صدر ٹرمپ کی طرف سے سپریم کورٹ کیلئے نامزد اُمیدوار جج بریٹ کیوینو پر بھی تین خواتین نے الزام لگایا کہ اُنہوں نے اُنہیں زمانہ طالب علمی میں جنسی طور پر ہراساں کیا تھا۔
پاکستان اور بھارت میں بھی فلمی صنعت اور شوبز سے وابستہ کئی خواتین نے دعوٰی کیا ہے کہ اُنہیں بھی اس شعبے میں کام کرنے والے بااثر مردوں کی طرف سے جنسی حراسیت کا سامنا رہا ہے۔
اس حوالے سے پاکستان کی گلوکارہ میشا شفیع نے گلوکار اور اداکار علی ظفر پر جنسی حراسیت کا الزام لگایا اور اب ان دونوں شخصیات میں قانونی جنگ جاری ہے۔ اسی طرح حال ہی میں بھارتی اداکارہ تنوشری دتہ نے بھی اداکار ناناپاٹیکر پر ایسے ہی الزامات عائد کئے ہیں۔
جنسی حراسیت کا مبینہ طور پر شکار ہونے والی خواتین کے سامنے آنے سے اس تحریک MeToo کو تقویت ملی ہے۔ تاہم، بعض ماہرین یہ سوال اُٹھا رہے ہیں کہ کیا یہ تحریک طویل عرصے تک مؤثر انداز میں جاری رہ پائے گی۔
خواتین کے حقوق سے متعلق ایک غیر سرکاری تنظیم CARE کی طرف سے ایک حالیہ سروے سے معلوم ہوا ہے کہ آٹھ ممالک کے ہر چار میں سے ایک شخص کا خیال ہے کہ اسے اپنی خواتین ملازمین کی طرف سے جنسی تسکین کا حق حاصل ہے۔
اس تنظیم کی ریچل لیمن نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ ایسے خیالات کے حامل افراد کا تناسب مصر میں 62 فیصد تھا۔لیکن امریکہ میں بھی نمبر یقینی طور پر کم نہیں ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ ہم ہر 8 میں سے ایک شخص کی بات کر رہے ہیں جو 2018 میں بھی ایسا رویہ رکھتا ہے۔ لٰہذا، یہ اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہ واقعی ایک عالمی مسئلہ ہے۔
کنسلٹنٹ دیویا تمین کے مطابق MeToo تحریک کاروباری دنیا میں ایک تبدیلی کا باعث بن رہی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ سرمایہ کار ایسے کاروباروں میں رقم لگانے سے گریزاں دکھائی دیتے ہیں جن میں MeToo کے حوالے سے سامنے آنے والے واقعات سے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔ اُن کا خیال ہے کہ کاروباری کمپنیوں کے بورڈ پہلے سے زیادہ ذمہ دار ہوتے جا رہے ہیں اور اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اُن کے بورڈ میں خواتین کی تعداد بڑھ گئی ہے۔ اس کے علاوہ وہ اپنی ساکھ کے حوالے سے موجود رسک سے بھی آگاہ ہیں۔
دیویا تمین کہتی ہیں کہ کاروباری کمپنیوں کے بورڈز نئے ارکان کی شمولیت سے زیادہ متنوع ہو گئے ہیں اور یہ تنوع بورڈ کو اس بات کا اہل بناتا ہے کہ وہ درست فیصلے کریں۔
تمین نے دسمبر 2015 سے ایسے ہائی پروفائل کیسز کا ریکارڈ مرتب کیا ہے جن میں لوگوں پر جنسی ہراسیت یا اس سے بھی زیادہ زیادتی کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ اس فہرست میں اب تک 723 نام شامل ہو چکے ہیں۔
ممکن ہے کہ MeToo تحریک سیاسی تبدیلی کو بھی فروغ دے رہی ہو۔ اب نومبر میں ہونے والے وسط مدتی انتخابات میں کانگریس، گورنر یا ریاستی اسمبلیوں کیلئے خواتین اُمیدواروں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ’سینٹر فار امریکن ویمن اِن پالیٹکس‘ کی کیلی ڈِٹمار کا کہنا ہے کہ MeToo تحریک ایک ایسا ماحول تشکیل دے رہی ہے جس میں خاص طور پر مردوں اور خواتین میں طاقت کے عدم توازن کے بارے میں سوال اُٹھائے جا رہے ہیں اور اگر تمام اداروں میں طاقت کے عدم توازن پر نظر ڈالی جائے تو پتا چلتا ہے کہ خواتین اہم فیصلے کرنے کا اختیار رکھنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔
کچھ امریکیوں کا خیال ہے کہ یہ تحریک ایک تبدیلی لا رہی ہے۔ ریاست یوٹا کی ایک گھریلو خاتون ٹیریسا برانٹ کہتی ہیں کہ اس تحریک کا یقینی طور پر اثر ہوا ہے اور اب وہ اپنی بیٹیوں کو یہ سکھانے کی کوشش کر رہی ہیں کہ وہ ایسے ممکنہ حالات سے کیسے نمٹ سکتی ہیں۔ ایری زونا ریاست سے تعلق رکھنے والے ایک ویب اور پراڈیکٹ ڈیزائنر ایرک ونسینٹ کا کہنا ہے کہ یہ تحریک اُنہیں اس بات پر غور کرنے کی طرف مائل کرتی ہے کہ یہ صورت حال باقی تمام معاشرے میں اس قدر کیوں پھیلی ہوئی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ آنکھیں کھولنے والی اور حیران کر دینے والی بات ہے۔
تنظیم CARE کی ریچل لیمن کا کہنا ہے کہ خواتین کو بلا تفریق ہر جگہ ایسے مسائل کا سامنا ہے اور تشدد، عدم مساوات اور انتہائی غربت ان مسائل میں مزید اضافہ کر دیتے ہیں۔
یہ تنظیم مصر جیسے ممالک میں ان مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش کر رہی ہے جہاں یہ رکشا چلانے والوں کو تربیت دے رہی ہے کہ وہ اپنے رکشا کو خواتین کیلئے محفوظ سواری کیسے بنائیں۔
لیکن، سوال یہ ہے کہ MeToo تحریک طویل عرصے تک جاری رہ پائے گی؟ انسانی حقوق کے علمبرداروں کا کہنا ہے کہ خواتین کیلئے مکمل آزادی کے خواب کی تعبیر حاصل کرنے کیلئے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ اس کیلئے صرف MeToo تحریک ہی کافی نہیں ہےبلکہ خواتین کو ایسے واقعات کے خلاف نڈر ہو کر بولنا پڑے گا۔