ان دنوں مریخ کے یک طرفہ سفر کی تیاریوں کو حتمی شکل دی جا رہی ہے۔ اور ایک سو رضاکاروں کو توقع ہے کہ یک طرفہ اولین پرواز سے جانے والے چار خوش نصیبوں میں ان کا نام بھی شامل ہوگا۔
ہالینڈ کی ایک غیر منافع بخش ادارے نے تقریباً دو سال پہلےMars One کے نام سے ایک منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے ایسے افراد کو اپنے کوائف بھیجنے کی دعوت دی تھی، جو کبھی واپس نہ آنے کے لیے مریخ کے سفر پر جانے کے لیے تیار ہوں۔
’واشنگٹن پوسٹ‘ اور دیگر میڈیا چینلز میں شائع ہونے والی رپورٹس کے مطابق، یک طرفہ مشن کے لیے دنیا کے 140 ملکوں سے دو لاکھ سے زیادہ لوگوں نے درخواستیں دیں۔ درخواست دینے کی صرف ایک شرط تھی کہ درخواست گذار کی عمر کم ازکم 18 سال ہو۔ درخواست کی فیس 38 امریکی ڈالر تھی۔ ادارے کے مطابق فیس سے حاصل ہونے والی رقم اس پراجیکٹ پر صرف کی جائے گی۔
درخواستوں کی چھان بین کے بعد ان میں سے 660 افراد کو شارٹ لسٹ کرکے انہیں انٹرویو کیا گیا۔ مشن کے میڈیکل آفیسر ناربرٹ کرافٹ کا کہنا ہے کہ انٹرویوز میں ہم نے صرف اس چیز کو پیش نظر رکھا کہ ایسے رضاکاروں کو چنا جائے جو اپنا سب کچھ تیاگ کر اور دنیا کو خیرباد کہہ کر مریخ جانے کے لیے تیار ہوں۔ ہم نے ان کی تعلیمی قابلیت اور مہارتوں کو نظر انداز کردیا۔
اگلے مرحلے کے لیے منتخب ہونے والے ایک سو افراد میں سے 50 مرد اور 50 خواتین ہیں۔ سب سے زیادہ افراد کا تعلق امریکہ سے ہے جن کی تعداد 38 ہے۔ اس کے بعد کینیڈا اور آسٹریلیا کا نمبر آتا ہے، جہاں سے سات سات افراد منتخب ہوئے ہیں۔ دو کی عمریں اٹھارہ سال ہیں جب کہ اس مشن کے سب سے معمر خلانورد ٹورنٹو سے تعلق رکھنے والے جارج فولڈز ہیں، جن کی عمر 60 برس ہے۔
نشریاتی ادارے، سی این این کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ سے چنے جانے والے 38 افراد میں سے 6 دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی، اور مضافاتی ریاستوں ورجینیا اور میری لینڈ میں رہتے ہیں، جن میں ورجینیا کے شہر اینا ڈیل کے 52 سالہ آرکیٹکٹ ڈینیئل میکس کیری، ورجینیا ہی کے نیوکلئیر انجنیئر 32 سالہ آسکر میتھیو، فیئر فیکس ورجینیا کے 50 سالہ مائیکل جوزف میکڈانل، اور الیکزنڈریا ورجنیا کی پولیٹکل کنسلٹنٹ سونیا نکول، ریاست میری لینڈ کے شہر اوونگ ملز کی سسٹمز انجنیئر 36 سالہ لورا سمتھ، اور واشنگٹن میں قائم ہاورڈ یونیورسٹی ہاسپیٹل کی ڈاکٹر 46 سالہ لائیلا رولینڈ زوکر شامل ہیں۔
تعلیمی اعتبار سے 19 منتخب افراد کے پاس کوئی ڈگری نہیں ہے۔ 27 کے پاس بی اے اور 30 کے پاس ماسٹر کی ڈگری ہے۔ ایک لاء گریجوایٹ ہے، چار ڈاکٹر اور سات افراد پی ایچ ڈی ہیں، جب کہ 13 ابھی اپنے تعلیمی مراحل میں ہیں۔
لیکن یہ فہرست حتمی نہیں ہے۔ ان ایک سو امیدواروں میں سے بعدازاں 24 کو شارٹ لسٹ کیاجائے گا، جس کے بعد انہیں چھ گروپوں میں بانٹ کر تربیت کے لیے بھیج دیا جائے گا۔
ادارے کا کہنا ہے کہ سات سال پر مشتمل تربیت میں انہیں یہ سکھایا جائے گا کہ خلانورد کی زندگی کیسی ہوتی ہے اور انہیں مریخ کے حالات کا مقابلہ کیسے کرنا ہے اور وہاں انسانی کالونی بنا کر اس کی آبادکاری کیسے کرنی ہے، تاکہ ان کی آئندہ نسلیں وہاں پروان چڑھ سکیں۔
ادارے کا اندازہ ہے کہ چار رضاکاروں پر مشتمل یک طرفہ مشن کا پہلا گروپ 2024 میں مریخ کے سفر پر روانہ ہوگا۔ یہ گروپ وہاں پہلی انسانی بستی تعمیر کرے گا۔ جس کے لیے اسے ضروری وسائل مہیا کیے جائیں گے۔ پہلی پرواز کے اخراجات کا تخمینہ چھ ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔ جب کہ اس کے بعد جانے والے مشنز پریہ اخراجات کم ہوکر ڈھائی ارب ڈالر فی پرواز ہونے کا اندازہ ہے۔
زمین سے مریخ کا فاصلہ تقریباً ساڑھے پانچ کروڑ کلومیٹر ہے۔ لیکن اس سفر میں زمین اور مریخ کی گردش کے تناسب سے کمی بیشی ہوتی رہتی ہے اور اس پر150سے 300 تک دن لگ سکتے ہیں۔
مریخ کا موسم انسانی آبادکاری کے لیے موزوں نہیں سمجھا جاتا۔ وہاں ہوا کا دباؤ زمین کے مقابلے میں تقریباً ایک سو گنا کم ہے۔ فضا میں کاربن ڈائی اکسائیڈ کا تناسب 95 فی صد اور آکسیجن موجود نہیں ہے۔ ہوا میں کسی قدر پانی کے بخارات موجود ہیں جن میں درجہٴ حرارت کے مطابق تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ مختلف حصوں میں چلنے والی گرد آلود ہوائیں اتنی طاقت ور ہیں کہ پورے سیارے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں۔ رات کے وقت درجہ حرارت منفی 150 ڈگری سینٹی گریڈ تک گر جاتا ہے۔
دیکھنا یہ ہے کہ سرخ سیارے مریخ پر انسانی آبادکاری کے لیے جانے والے چار چار رضاکاروں کے یہ چھ گروپ اپنے اس عظیم منصوبے میں کس حد تک کامیاب ہوپائیں گے۔