شادی بیاہ کے حوالے سےدرجنوں ایسی ویب سائٹس موجود ہیں جو خاص مذہب ،قومیت برادری کے نام پر بنائی گئی ہیں۔
لندن —
جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں مگر دنیا میں انھیں ملوانے کا سبب بننے والوں کو ہم اور آپ محلے کی جگت خالہ اور رشتہ کروانے والی بوا کے ناموں سے پہچانتے تھے۔
یوں تو پاکستان کے بڑے شہروں میں اخبارات اور میرج بیورو کے ذریعے رشتہ ڈھونڈنے کا رواج زیادہ عام ہو چلا ہے۔ تاہم انٹرنیٹ ایک ایسا ذریعہ ہے جس نے ہزاروں میل دور بسنے والوں کو ایک دوسرے کے نزدیک کر دیا ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ وطن سے دور رہنے والوں میں اس جدید طریقہ کار سے رشتہ تلاش کرنے کا رجحان بڑھتا جارہا ہے۔
شادی بیاہ کے حوالے سے درجنوں ایسی ویب سائٹس موجود ہیں جو خاص مذہب، قومیت برادری کے نام پر بنائی گئی ہیں۔
برطانیہ میں'' اول ویلفئیر ایسوسی ایشن '' کے نام سے ایک ایسی ہی سماجی ویب سائٹ ہے جو، برطانوی نژاد پاکستانی والدین کواپنے بچوں کی شادی کے لیے مناسب رشتے ڈھونڈنے میں مدد فراہم کر رہی ہے۔
اس ویب سائٹ کے سربراہ اشفاق سلیمی پیشے کے لحاظ سے ایک چارٹرڈ اکاونٹنٹ ہیں جبکہ گذشتہ بیس برس سے اس ویب سائٹ کے ذریعے بلا معاوضہ یہ سماجی خدمت انجام دے رہے ہیں۔
'' آج سے تقریباً چالیس برس قبل میں برطانیہ آیا تھا ،اس وقت ہمیں پر دیس میں بحیثیت پاکستانی آپس میں میل جول بڑھانے کی اشد ضرورت تھی لہذا 80 کی دہائی میں کچھ دوستوں کے ساتھ مل کر ایک کمیونٹی آرگنائزیشن کی بنیاد رکھی۔ جس کے تحت ہم سال میں دو سے تین بار تقریبات کے بہانے ملا کرتے تھے ۔‘‘
اشفاق سلیمی کے مطابق اسی طرح بچوں کی شادی کے لیے مناسب رشتے ڈھونڈنے کے حوالے سے بھی والدین کو مشکلات پیش آرہی تھیں۔ لہذا انھوں نے سوچا کہ پاکستانی والدین کو ایک ایسے پلیٹ فارم کی ضرورت ہے جہاں وہ ایک دوسرے کو جان سکیں یہیں سے اول ویلفئر ایسوسی ایشن کی بنیاد ڈالی گئی۔
’’ہم یہاں صرف رشتوں کا تعارف پیش کرتے ہیں۔ شادی بیاہ سے متعلق ضروری چھان بین کرنا اور دیگر معاملات والدین خود ہی طے کرتے ہیں ۔‘‘
برطانیہ میں ایک تحقیق ’’ہاؤ بریٹن از فئیر‘‘ کے نام سے سال 2010ء میں ہوئی تھی جس کے مطابق، برطانیہ میں ملازمت پیشہ پاکستانی اور بنگلہ دیشی کنواری لڑکیوں کی تعداد اپنے ہم وطن غیر شادی شدہ لڑکوں کی نسبت بہت زیادہ ہے۔
اس رجحان کا سبب بتاتے ہوئے سلیمی صاحب نے کہا کہ لڑکوں کی سوچ میں اب بھی قدامت پسندی پائی جاتی ہے۔ ’’اس بات کو آپ اس طرح سمجھ لیں کہ، وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ بیوی سے کچھ خائف نظر آتے ہیں۔ لڑکوں کی شادی کرنے کے حوالے سے لڑکی کی خوبصورتی کو اولیت دی جاتی ہے جبکہ، لڑکیوں کے والدین اپنی بیٹی کے لیے ایسے لڑکے کے خواہش مند ہوتے ہیں جو تعلیم میں ان کی بیٹی کے ہم پلہ ہو ۔‘‘
اشفاق سلیمی کہتے ہیں کہ ہماری ویب سائٹ پر بھی ملازمت پیشہ لڑکیوں کی فہرست لمبی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ لڑکیاں نہ صرف اپنی تعلیم کو اولیت دیتی ہیں بلکہ جس پیشے سے وابستہ ہوتی ہیں اس کی ذمہ داری کو پوری طرح نبھانے کی کوشش کرتی ہیں۔ بر خلاف اس کے پڑھے لکھے اور اچھی ملازمت سے وابستہ لڑکوں کی تعداد میں دن بدن کمی ہوتی جا رہی ہے۔
خاندان اور حسب نسب جاننے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا ’’ رشتہ تلاش کرنے کے لیے اولیت تو اب بھی خاندان ہی کو دی جاتی ہے۔ جہاں تک پسند سے شادی کرنے کا تعلق ہے تو ایسی شادیاں دنیا کے ہر خطے میں ہوتی ہیں یہاں کی لڑکیاں خود اعتماد ضرور ہیں مگر خاندانی روایت سے جڑی ہوئی ہیں ۔‘‘
یوں تو پاکستان کے بڑے شہروں میں اخبارات اور میرج بیورو کے ذریعے رشتہ ڈھونڈنے کا رواج زیادہ عام ہو چلا ہے۔ تاہم انٹرنیٹ ایک ایسا ذریعہ ہے جس نے ہزاروں میل دور بسنے والوں کو ایک دوسرے کے نزدیک کر دیا ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ وطن سے دور رہنے والوں میں اس جدید طریقہ کار سے رشتہ تلاش کرنے کا رجحان بڑھتا جارہا ہے۔
شادی بیاہ کے حوالے سے درجنوں ایسی ویب سائٹس موجود ہیں جو خاص مذہب، قومیت برادری کے نام پر بنائی گئی ہیں۔
برطانیہ میں'' اول ویلفئیر ایسوسی ایشن '' کے نام سے ایک ایسی ہی سماجی ویب سائٹ ہے جو، برطانوی نژاد پاکستانی والدین کواپنے بچوں کی شادی کے لیے مناسب رشتے ڈھونڈنے میں مدد فراہم کر رہی ہے۔
اس ویب سائٹ کے سربراہ اشفاق سلیمی پیشے کے لحاظ سے ایک چارٹرڈ اکاونٹنٹ ہیں جبکہ گذشتہ بیس برس سے اس ویب سائٹ کے ذریعے بلا معاوضہ یہ سماجی خدمت انجام دے رہے ہیں۔
'' آج سے تقریباً چالیس برس قبل میں برطانیہ آیا تھا ،اس وقت ہمیں پر دیس میں بحیثیت پاکستانی آپس میں میل جول بڑھانے کی اشد ضرورت تھی لہذا 80 کی دہائی میں کچھ دوستوں کے ساتھ مل کر ایک کمیونٹی آرگنائزیشن کی بنیاد رکھی۔ جس کے تحت ہم سال میں دو سے تین بار تقریبات کے بہانے ملا کرتے تھے ۔‘‘
اشفاق سلیمی کے مطابق اسی طرح بچوں کی شادی کے لیے مناسب رشتے ڈھونڈنے کے حوالے سے بھی والدین کو مشکلات پیش آرہی تھیں۔ لہذا انھوں نے سوچا کہ پاکستانی والدین کو ایک ایسے پلیٹ فارم کی ضرورت ہے جہاں وہ ایک دوسرے کو جان سکیں یہیں سے اول ویلفئر ایسوسی ایشن کی بنیاد ڈالی گئی۔
’’ہم یہاں صرف رشتوں کا تعارف پیش کرتے ہیں۔ شادی بیاہ سے متعلق ضروری چھان بین کرنا اور دیگر معاملات والدین خود ہی طے کرتے ہیں ۔‘‘
برطانیہ میں ایک تحقیق ’’ہاؤ بریٹن از فئیر‘‘ کے نام سے سال 2010ء میں ہوئی تھی جس کے مطابق، برطانیہ میں ملازمت پیشہ پاکستانی اور بنگلہ دیشی کنواری لڑکیوں کی تعداد اپنے ہم وطن غیر شادی شدہ لڑکوں کی نسبت بہت زیادہ ہے۔
اس رجحان کا سبب بتاتے ہوئے سلیمی صاحب نے کہا کہ لڑکوں کی سوچ میں اب بھی قدامت پسندی پائی جاتی ہے۔ ’’اس بات کو آپ اس طرح سمجھ لیں کہ، وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ بیوی سے کچھ خائف نظر آتے ہیں۔ لڑکوں کی شادی کرنے کے حوالے سے لڑکی کی خوبصورتی کو اولیت دی جاتی ہے جبکہ، لڑکیوں کے والدین اپنی بیٹی کے لیے ایسے لڑکے کے خواہش مند ہوتے ہیں جو تعلیم میں ان کی بیٹی کے ہم پلہ ہو ۔‘‘
اشفاق سلیمی کہتے ہیں کہ ہماری ویب سائٹ پر بھی ملازمت پیشہ لڑکیوں کی فہرست لمبی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ لڑکیاں نہ صرف اپنی تعلیم کو اولیت دیتی ہیں بلکہ جس پیشے سے وابستہ ہوتی ہیں اس کی ذمہ داری کو پوری طرح نبھانے کی کوشش کرتی ہیں۔ بر خلاف اس کے پڑھے لکھے اور اچھی ملازمت سے وابستہ لڑکوں کی تعداد میں دن بدن کمی ہوتی جا رہی ہے۔
خاندان اور حسب نسب جاننے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا ’’ رشتہ تلاش کرنے کے لیے اولیت تو اب بھی خاندان ہی کو دی جاتی ہے۔ جہاں تک پسند سے شادی کرنے کا تعلق ہے تو ایسی شادیاں دنیا کے ہر خطے میں ہوتی ہیں یہاں کی لڑکیاں خود اعتماد ضرور ہیں مگر خاندانی روایت سے جڑی ہوئی ہیں ۔‘‘