اس برس آسکر ایوارڈز کے لیے نامزد یہ فلم آپ کو لے کر جاتی ہے سوڈان کے ایک ہسپتال میں جہاں دل کے مہلک مرض میں مبتلا آٹھ افریقی بچوں کے دل کی سرجری کی جاتی ہے۔
واشنگٹن —
فلم ’اوپن ہارٹ‘ کہانی بتاتی ہے ان آٹھ افریقی بچوں کی جو دل کے ایک مہلک مرض کا شکار ہیں۔ یہ بچے روانڈا سے سوڈان آتے ہیں جہاں ان کا آپریشن کرکے ان کی زندگی بچائی جاتی ہے۔ اس مختصر دورانیے کی فلم کو حال ہی میں اکیڈمی ایوارڈ کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔ ’اوپن ہارٹ‘ کے فلم ساز کایف ڈیوڈسن کہتے ہیں کہ انہیں امید ہے کہ اس فلم کے ذریعے افریقہ میں صحت کے مسائل اجاگر کرنے میں مدد ملے گی۔
دل کے امراض کے ماہر ایمونیل رُوسنگیزا کی زندگی کا مقصد چھوٹے بچوں کو اس مہلک مرض سے بچانے کے لیے کاوش کرنا ہے۔ اور اس فلم میں ڈاکٹر ایمونیل رُوسنگیزا کی انہی کوششوں کو دکھایا گیا ہے۔
ڈاکٹر ایمونیل رُوسنگیزا کہتے ہیں، ’’جب میں گھر جاتا ہوں میں تب بھی گھنٹوں تک اپنے ان مریضوں کے بارے میں ہی سوچتا رہتا ہوں جن کی صحت بہت زیادہ اچھی نہیں۔‘‘
یہ فلم آپ کو لے کر جاتی ہے سوڈان کے ایک ہسپتال ’سلام سنٹر فارکارڈیک سرجری‘ میں جہاں ان آٹھ بچوں کے دل کی سرجری کی جاتی ہے۔ یہ سنٹر اٹلی سے حاصل والی امدادی رقم کی مدد سے چلایا جاتا ہے۔
فلم ساز ڈیوڈسن ان ننھے بچوں اور ان کے خاندانوں کا دکھ محسوس کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’میرے خیال میں کوئی بھی ایسا انسان جس کے بچے ہوں یہ سمجھ سکتا ہے کہ ان لوگوں کو کس تکلیف سے گزرنا پڑتا ہے۔‘‘
ان آٹھ بچوں کے والدین ان کے ساتھ سوڈان نہیں جا سکے اور انہیں روانڈا میں ہی رکنا پڑا۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ جان لیوا مرض میں مبتلا اپنے بچوں کو وہ دوبارہ دیکھ بھی سکیں گے یا نہیں؟ ڈاکٹر ایمونیل رُوسنگیزا نے ان بچوں کے اس سفر میں ان کی مدد کی۔ ان کے مطابق، ’’اپنے گھر والوں سے دور ایک دوسرے ملک میں رہنا آسان نہیں۔ یہ تجربہ ان بچوں کے لیے بھی مشکل تھا۔‘‘
یہ آٹھ بچے دل کے ایک ایسے مہلک مرض میں مبتلا ہیں جو گلے کی بیماری کی وجہ سے پھیلتا ہے۔ اس مرض میں پہلے گلے میں درد رہتا ہے پھر بخار ہوتا ہے جو بگڑنے پر دل کی شریانوں کو نقصان پہنچاتا ہے۔ فلم ساز ڈیوڈ سن کہتے ہیں کہ کبھی یہ مرض امریکہ میں عام پایا جاتا تھا لیکن اب ایسا نہیں ہے۔
ان کے مطابق، ’’اس مرض سے بچاؤ بہت آسان ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے آپ کو معمولی بیماری ہوئی اور آپ نے اینٹی بائیوٹیکس کھا لیں۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ انکی فلم کی آسکر ایوارڈز کے لیے نامزدگی کے بعد اسے لوگوں کی زیادہ توجہ ملنا شروع ہو گئی ہے۔ ان کے الفاظ، ’’اگر اس فلم کی وجہ سے لوگ اس موضوع پر بات کرنا شروع کرتے ہیں تو یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔‘‘
دل کے امراض کے ماہر ایمونیل رُوسنگیزا کی زندگی کا مقصد چھوٹے بچوں کو اس مہلک مرض سے بچانے کے لیے کاوش کرنا ہے۔ اور اس فلم میں ڈاکٹر ایمونیل رُوسنگیزا کی انہی کوششوں کو دکھایا گیا ہے۔
ڈاکٹر ایمونیل رُوسنگیزا کہتے ہیں، ’’جب میں گھر جاتا ہوں میں تب بھی گھنٹوں تک اپنے ان مریضوں کے بارے میں ہی سوچتا رہتا ہوں جن کی صحت بہت زیادہ اچھی نہیں۔‘‘
یہ فلم آپ کو لے کر جاتی ہے سوڈان کے ایک ہسپتال ’سلام سنٹر فارکارڈیک سرجری‘ میں جہاں ان آٹھ بچوں کے دل کی سرجری کی جاتی ہے۔ یہ سنٹر اٹلی سے حاصل والی امدادی رقم کی مدد سے چلایا جاتا ہے۔
فلم ساز ڈیوڈسن ان ننھے بچوں اور ان کے خاندانوں کا دکھ محسوس کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’میرے خیال میں کوئی بھی ایسا انسان جس کے بچے ہوں یہ سمجھ سکتا ہے کہ ان لوگوں کو کس تکلیف سے گزرنا پڑتا ہے۔‘‘
ان آٹھ بچوں کے والدین ان کے ساتھ سوڈان نہیں جا سکے اور انہیں روانڈا میں ہی رکنا پڑا۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ جان لیوا مرض میں مبتلا اپنے بچوں کو وہ دوبارہ دیکھ بھی سکیں گے یا نہیں؟ ڈاکٹر ایمونیل رُوسنگیزا نے ان بچوں کے اس سفر میں ان کی مدد کی۔ ان کے مطابق، ’’اپنے گھر والوں سے دور ایک دوسرے ملک میں رہنا آسان نہیں۔ یہ تجربہ ان بچوں کے لیے بھی مشکل تھا۔‘‘
یہ آٹھ بچے دل کے ایک ایسے مہلک مرض میں مبتلا ہیں جو گلے کی بیماری کی وجہ سے پھیلتا ہے۔ اس مرض میں پہلے گلے میں درد رہتا ہے پھر بخار ہوتا ہے جو بگڑنے پر دل کی شریانوں کو نقصان پہنچاتا ہے۔ فلم ساز ڈیوڈ سن کہتے ہیں کہ کبھی یہ مرض امریکہ میں عام پایا جاتا تھا لیکن اب ایسا نہیں ہے۔
ان کے مطابق، ’’اس مرض سے بچاؤ بہت آسان ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے آپ کو معمولی بیماری ہوئی اور آپ نے اینٹی بائیوٹیکس کھا لیں۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ انکی فلم کی آسکر ایوارڈز کے لیے نامزدگی کے بعد اسے لوگوں کی زیادہ توجہ ملنا شروع ہو گئی ہے۔ ان کے الفاظ، ’’اگر اس فلم کی وجہ سے لوگ اس موضوع پر بات کرنا شروع کرتے ہیں تو یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔‘‘