بھارتی کشمیر میں نئی حلقہ بندیاں: اپوزیشن جماعتوں اور پاکستان کا اعتراض

فائل فوٹو

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں ہونے والی نئی حلقہ بندیوں پر جہاں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے تحفظات سامنے آ رہے ہیں تو وہیں پاکستان نے بھی ان پر اعتراضات اُٹھا دیے ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے بھارتی کشمیر میں ہندو اکثریتی علاقوں کو زیادہ نشستیں مل جائیں گی۔

بھارتی کشمیر میں نئی حلقہ بندیاں مرکزی حکومت کی جانب سے قائم کیے گئے جموں و کشمیر حد بندی کمیشن کے تحت کی گئی ہیں جس میں پارلیمانی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے لیے نئی حلقہ بندیاں کی گئی ہیں۔

مارچ 2020 میں بھارتی سپریم کورٹ کی ایک سابق جج رنجنا پرکاش دیسائی کی سربراہی میں قائم کئے گئے جموں و کشمیر حد بندی کمیشن کی حتمی رپورٹ پر جمعرات کو نئی دہلی میں دستخط کیے گئے۔ اس طرح وفاق کے زیرِ کنٹرول علاقے یا یونین ٹریٹری آف جموں اینڈ کشمیر میں پارلیمانی اور صوبائی اسمبلی حلقوں کی نئی حد بندی کا کام مکمل کیا گیا۔

کمیشن کے دوسرے ممبران میں بھارت کے چیف الیکشن کمشنر سشیل چندرا اور ڈپٹی الیکشن کمشنر چندر بھوشن کمار اور جموں و کشمیر کے چیف الیکشن کمشنر کے کے شرما شامل ہیں۔

علاقائی جماعت نیشنل کانفرنس کے اراکینِ پارلیمنٹ ڈاکٹر فاروق عبداللہ، محمد اکبر لون اور جسٹس (ر)حسنین مسعودی، وزیر اعظم کے دفتر میں وفاقی وزیر مملکت ڈاکٹر جتیندر سنگھ اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ایک اور رُکن پارلیمنٹ جگل کشور شرما پینل کے دیگر پانچ ایسوسی ایٹ ممبران بھی کمیشن میں تھے۔

کمیشن کی طرف سے اس کی مدت ختم ہونے سے ایک دن قبل پیش کی گئی حتمی رپورٹ کے بعد حکومت نے جونوٹی فکیشن جاری کیا اس کے مطابق جموں و کشمیر میں اب 83 کے بجائے 90 اسمبلی اور پانچ پارلیمانی حلقے ہوں گے۔ سات نئی اسمبلی نشستوں میں وادیٔ کشمیر کو صر ف ایک مزید نشست ملی ہے۔

سات اضافی اسمبلی سیٹوں میں سے چھ ہندو اکثریتی جموں کو دی گئی ہیں جب کہ وادیٔ کشمیر کو جہاں مسلمان اکثریت میں آباد ہیں صرف ایک نشست ملی ہے۔ اس طرح اب وادی کشمیر میں 47 اور جموں میں 43 اسمبلی نسشتیں ہوں گی۔ اس سے پہلے وادیٔ کشمیر میں 46 اور جموں میں 37اسمبلی سیٹیں تھیں ۔


اس کے علاوہ پہلی بار درج فہرست قبائل (گجر برادری، بکروال وغیرہ) کے لیے نونشستیں اور مختلف ذاتوں کے لیے سات نشستیں مختص کی ہیں۔سیاسی تجزیہ کاروں اور آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کا فائدہ بھی زیادہ ترجموں خطے کو ملے گا۔

پاکستانی کشمیر کے مہاجرین کو بھی نمائندگی دینے کی سفارش

کمیشن نے اپنی رپورٹ میں ایک خاتون سمیت وادیٔ کشمیر سے نقلِ مکانی کرنے والے ہندو برہمنوں جو عرفِ عام میں کشمیری پنڈت کہلاتے ہیں سے تعلق رکھنے والے دو افراد کو اسمبلی کے لیے نامزد کرنے کی سفارش کی ہے۔

کمیشن نے جموں و کشمیر اسمبلی میں پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر سے آئے مہاجرین کو بھی نمائندگی دینے کی سفارش کی ہے۔ بھارت کے الیکشن کمیشن کے حکام کا کہنا ہے کہ وہ حد بندی کمیشن کی ان سفارشات پر سنجیدگی سے غور کرے گا۔ واضح رہے کہ جموں و کشمیر اسمبلی کی 90 نشستوں کے علاوہ 24 ایسی نشستیں ہیں جنہیں پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے لیے وقف کیا گیا ہے۔

خیال رہے کہ بھارت کا دعویٰ ہے کہ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر بھی اس کا حصہ ہے، لہذٰا اس کے لیے 24 نشستیں رکھی گئی ہیں، بھارتی حکام کا کہنا ہے کہ جب یہ حصہ بھی بھارت میں ضم ہو جائے گا تو یہاں کی 24 نشستوں پر بھی الیکشن ہو گا۔

حد بندی کمیشن کی رپورٹ میں پہلی بار پانچوں پارلیمانی حلقوں میں اسمبلی حلقوں کی نشستوں کی تعداد برابر رکھی گئی ہے۔

ہر لوک سبھا (بھارتی پارلیمان کا ایوانِ زیریں) سیٹ 18 اسمبلی حلقوں پر مشتمل ہو گی ۔ نیز حد بندی کمیشن نے جموں و کشمیر کو واحد وفاق کے زیر انتظام علاقے کے طور پر شناخت کیا ہے۔ اس لیے وادی کے اننت ناگ خطہ اور جموں خطہ میں راجوری اور پونچھ کو ملا کر ایک پارلیمانی حلقہ بنایا گیا ہے۔ کئی اسمبلی اور پارلیمانی حلقوں کی حدود میں بھی رد و بدل کیا گیا ہے اور بعض اسمبلی حلقوں کے نام بھی تبدیل کیے گئے ہیں۔


بی جے پی کے ہندوتوا ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی کوشش کے الزامات

حزبِِ اختلاف کی کئی جماعتوں اور بعض سیاسی ناقدین نے حد بندی کمیشن کو ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کا توسیع پسندانہ منصوبہ قرار دیا ہے۔

اپوزیشن رہنماؤں کا الزام ہے کہ بی جے پی ہندوتوا ایجنڈے پر عمل درآمد کے لیے کوشاں ہے اور نئی حلقہ بندیاں بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

'حد بندی کمیشن کا قیام ہی غیر آئینی اور غیر قانونی تھا'

بھارت کی مارکس وادی کمیونسٹ پارٹی کے مقامی لیڈر اور پیپلز الائنس فار گپکار ڈیکلریشن (پی اے جی ڈی) کے ترجمانِ اعلیٰ محمد یوسف تاریگامی کا کہنا ہے کہ حد بندی کمیشن کا قیام ہی غیر قانونی اورغیر آئینی تھا۔

انہوں نے کہا کہ آئین ہند میں کی گئی 84ویں ترمیم کے تحت ملک میں لوک سبھا اور صوبائی اسمبلیوں کی نئی حد بندی 2026 تک نہیں کی جاسکتی جس کی توثیق بھارتی سپریم کورٹ اور جموں و کشمیر اسمبلی نے بھی کی تھی۔

اتحاد میں شامل پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی کی صدر اور سابق وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا "میں روزِ اول ہی سے یہ کہتی آئی ہوں کہ یہ حد بندی کمیشن بی جے پی ہندوتوا عزائم کی توسیع ہے۔

'بھارتی حکومت کشمیری مسلمانوں کو کمزور کرنا چاہتی ہے'

چند دوسری علاقائی جماعتوں نے بھی جن میں جموں و کشمیر اپنی پارٹی اور جموں و کشمیر پیپلز کانفرنس بھی شامل ہیں حد بندی کمیشن کی رپورٹ کو مسترد کردیا ہے۔

استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی کشمیری جماعتوں کے اتحاد کُل جماعتی حریت کانفرنس کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ بھارتی حکومت مسلمانوں کو بے اختیار کرنا چاہتی ہے۔

پاکستان کا ردِعمل

حد بندی کمیشن کی رپورٹ پر پاکستان نے بھی شدید ردِ عمل کا اظہار کیا ہے۔

اسلام آباد میں دفترِ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ " اس کا مقصد بھارتی مقبوضہ جموں وکشمیر کی اکثریتی مسلم آبادی کو حق رائے دہی سے محروم کرنا اور بے اختیار بناناہے۔ پاکستان اس نام نہاد حد بندی کمیشن کی رپورٹ کو یکسر مسترد کرتا ہے۔"

اس سے پہلے جمعرات کو اسلام آباد میں تعینات بھارت کے ایلچی کو دفترِ خارجہ میں طلب کرکے اس سلسلے میں پاکستان کے اعتراضات پر مبنی ایک نوٹ ان کے حوالے کیا گیا۔

رپورٹ منصفانہ اور غیر جانبدارانہ ہے: بی جے پی

لیکن بی جے پی اورہم خیال جماعتوں نے حد بندی کمیشن کی حتمی رپورٹ کا خیر مقدم کیا ہے ۔

بی جے پی کے سرکردہ لیڈردیویندر سنگھ رانا نے وائس آف امریکہ کو بتایا "حد بندی کمیشن کی رپورٹ پر عملدرآمد سےجموں و کشمیر کی آبادی کے سبھی حصوں کو سیاسی طور پر با اختیار بنانے کے لیے راہ ہموار ہو گی۔ یہ ایک منصفانہ اور غیر جانبدارانہ رپورٹ ہے جس کا ہم خیر مقدم کرتے ہیں۔"

انہوں نے مزید کہا "میں کمیشن کو ایسی عقلمندانہ رپورٹ تیار کرنے پر مبارکباردینا چاہتا ہوں کیونکہ اس سے سیاسی عمل اور فیصلہ سازی میں شامل سبھی افراد اور جماعتوں کو یکساں مواقع فراہم ہوں گے۔