منگل اٹھارہ جنوری 2011ء ۔۔ جی ہاں کل پرسوں کی ہی بات ہے۔ صبح کا سورج ابھی مشرق کی اوٹ سے بھی نہ نکلا تھا اور لوگ سرد موسم کی روپہلی دھوپ سینکنے بستروں سے نکلے بھی نہ تھے کہ شہر قائد کی سب سے بڑی کچی آبادی اورنگی ٹاوٴن کی کچی پکی گلیوں میں سرکاری پہرے داروں کے سخت بوٹوں کی آوازیں گونجنے لگیں۔ عورتیں اور بوڑھے سہم گئے تو نوجوانوں کی نگاہیں بھی انجانے خوف کے ساتھ سوالیہ ہوگئیں۔ مقامی صحافی منیب احمد ساحل بھی ان میں شامل تھے۔ انہوں نے ہمت کی، باہر گلیارے میں جھانک کر دیکھا۔۔۔ محلے کے کئی لوگ چہ میگوئیاں کررہے تھے۔۔۔ صورتحال کا جائزہ لینے وہ بھی ان لوگوں میں جا ملے۔
معلوم ہوا پاکستان رینجرز نے ٹارگٹ کلنگ اور دیگر سنگین جرائم میں ملوث افراد کی گرفتاری کیلئے ”آپریشن مڈنائٹ ٹارگٹ“ شروع کیا ہوا ہے۔ تھانہ مومن آباد کی حدود فقیر کالونی، عمر بلوچ محلہ، مسقطی محلہ، فواد چوک اور اطراف کے علاقوں میں رینجرز کا سخت پہرا ہے۔ نہ کوئی اسکول، کالج جاسکتا ہے نہ دکان و دفتر!!
صبح کے آٹھ بجتے بجتے گھروں میں موجود ٹی وی پر بھی علاقے کو محاصرے میں لئے جانے کی خبریں گردش کرنے لگیں۔ مکینوں کو اصل صورتحال کا علم ٹی وی سے ہی ہوا۔ دوپہر ڈھلتے ڈھلتے علاقے کے ہر گھر کی تلاشی لی جاتی رہی۔ گھروں میں تلاشی کے لئے رینجرز کی خواتین اہلکاروں نے بھی آپریشن میں حصہ لیا۔ تما م لوگوں کے قومی شناختی کارڈز بھی چیک کئے گئے۔ اس دوران بعض گھروں سے ہتھیار بھی برآمد ہوئے جن میں رائفل، ریوالور اور دیگر اسلحہ شامل تھا۔
آپریشن تقریباً 8 گھنٹے جاری رہنے کے بعد ختم کردیا گیا ۔ آپریشن کے دوران پانچ سو سے زائد افراد کو حراست میں لے لیا گیا تاہم ان میں سے نصف تعداد کو ابتدائی تفتیش کے بعد رہا کردیا گیا ۔
شہر میں کرفیو، جزوی کرفیو، آپریشن اور محاصرے کی خبریں کئی دن پہلے سے آرہی تھیں مگر یہ معلوم نہیں تھا کہ محاصرہ کب اور کس علاقے میں ہوگا۔ یوں اورنگی آپریشن کی خبر جتنی وہاں کے مکینوں کے لئے حیرانی کا باعث تھی اتنی ہی حیرانی سار ے شہر کو بھی تھی۔ انتظامیہ کے مطابق اس آپریشن کا مقصدکراچی میں پچھلے ایک سال سے جاری ٹارگٹ کلرز کو قانونی گرفت میں لانا تھا۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ۔۔۔
اور نگی ہی پہلے کیوں؟
اس کا سیدھا سا جواب تو یہ ہے کہ یہی وہ علاقہ ہے جو حالیہ دنوں میں سب سے زیادہ ٹارگٹ کلرز کا نشانہ بنا۔ ۔۔ اور اگر گہرائی میں جاکر اس کا جائزہ لیں تو اس سے پہلے اورنگی ٹاوٴن کا محل وقوع سمجھنا ضروری ہے۔
اورنگی ٹاوٴن کی آبادی 50لاکھ کے قریب ہے۔ یہ ایشیاء کی سب سے بڑی کچی آبادی بھی شمارہوتی رہی ہے۔ اس علاقے میں عمومی طور پر اردو بولنے والے، بہاری کہلائے جانے والے، بنگالی، سندھی، بلوچی اور پشتو زبانیں بولنے والے افراد رہتے ہیں۔ عددی تناسب کے لحاظ سے دیکھیں تو اردو اسپیکنگ، بہاری اور بنگالی افراد کی تعداد اسی فیصد ہے۔ جبکہ پشتو بولنے والے پندرہ فیصد، سندھی دو فیصد اور بلوچ تین فیصدبنتے ہیں۔
اورنگی ٹاون کو شہر سے ملانے والے تین راستے ہیں جوکٹی پہاڑی، بنارس اور میٹروول سے ہوکر گزرتے ہیں۔ ان میں کٹی پہاڑی کا راستہ حالیہ برسوں میں ہی کھلاہے۔ یہ پہاڑوں کو کاٹ کر نکالا گیا ہے۔ اس کے ایک کونے پر ایک لسانی گروہ یا ایک سیاسی جماعت کے ماننے والے رہتے ہیں تو دوسری جانب دوسرا گروہ۔ دونوں گروہوں میں نظریات، زبان، کلچر، خیالات اور زندگی کے طور طریقے تک ایک دوسرے سے مختلف ہیں ۔ ذرا سی بات ہوئی نہیں کہ یہ راستہ 'موت کی راہ' بن جاتا ہے۔ رات تو رات دن کے وقت بھی یہاں سے گزرتے وقت کئی مرتبہ سوچنا اور حالات کا جائزہ لینا پڑتا ہے۔
کم و بیش یہی حال پورے علاقے کا ہے۔ یہاں کوئی ایک جماعت، زبان اور کلچر کے حامل افراد نہیں رہتے بلکہ پوری آبادی ملی جلی ہے۔ یہ کم آمدنی والے افرا د کا علاقہ ہے اور بیک وقت کئی مسائل سے دوچار ہے۔ ایدھی ٹرسٹ کے عہدیدار فیصل ایدھی کے مطابق جن میں غربت اور بے روزگاری سب سے اہم ہیں۔ ان مسائل کا کوئی حل نہ دیکھتے ہوئے اکثر نوجوان جرائم پیشہ افراد کا آسانی سے ہدف بن جاتے ہیں۔ ایسے میں کچھ سیاسی جماعتیں بھی ان سے ہمدردی جتا کر اپنے مقاصد پورے کرانے سے نہیں چوکتیں۔
اسی علاقے میں رہائش پذیر مقامی صحافی منیب احمد ساحل نے اورنگی میں ہونے والے حالیہ آپریشن اور آبادی کے مسائل پر وی او اے سے تبادلہ خیال کرتے ہوئے بتایا: جن علاقوں میں آپریشن ہوا وہ اتنے خطرناک نہیں ہیں جتنے وہ علاقے ہیں جہاں آپریشن نہیں ہوا۔ مثلاً بخاری کالونی، جو پوری اورنگی میں فسادات کے دوران سب سے خطرناک پوائنٹ ہوتا ہے۔ یہاں زیادہ تر مسئلہ بھتہ خوری کا ہے۔ بھتہ خوروں کے گروہ آپس میں لڑتے ہیں تو ٹارگٹ کلنگ بڑھ جاتی ہے۔ 2005ء میں یہاں ایک زبان بولنے والے رہتے تھے لیکن 2008ء میں اسی فیصد مکانات دوسری قوم کے رہنے والوں نے لے لئے اور کچھ پر مافیا قبضہ کربیٹھی۔ یوں یہاں لسانی فسادات اب عام بات ہوگئے ہیں۔
علاقے کی ایک چالیس سالہ خاتون شیراز جان کا کہنا ہے کہ اسے آپریشن کے بعد اور زیادہ خوف آنے لگا ہے ۔ "میرے اہل خانہ چالیس سال سے کراچی میں مقیم ہیں ۔ ہم لوگ 1970ء میں کراچی آئے تھے مگر اب ہمارے ساتھ غیروں والا سلوک ہونے لگا ہے۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ علاقے میں آباد پشتون آبادی اپنے بچوں کو اسکول بھیجتے ہوئی بھی ڈرنے لگی ہے"۔
مگر ایسا ہرگز نہیں ہے کہ صرف ایک زبان بولنے والے ہی خوف میں مبتلا ہوں ۔ یہاں رہنے والے کم وبیش تمام لسانی گروہ ایک دوسرے سے بری طرح خوف زدہ ہیں۔ آپریشن کے بعد تو گویا اس خوف میں اور بھی زیادہ اضافہ ہوگیا ہے ۔ علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ سیکورٹی فورسز نے کئی گھنٹوں تک کسی کوبھی ہلنے نہیں دیا۔ 25سالہ ساجدہ سراج کا کہنا ہے کہ آپریشن والے دن تین سیکورٹی اہلکار اس کے گھر سرچ آپریشن کرنے آئے تھے، انہوں نے آتے ہی سب کے شناختی کارڈ مانگے ۔ میرے شوہر کا شناختی کارڈ نہیں مل رہا تھا جسے جبری تلاش کرایا گیا اور اس تلاش میں خاصا وقت گزر گیا۔ اس تمام وقت مجھے برے برے خیالات آتے رہے اور میں بری طرح خوف میں مبتلا رہی۔ میں یہی سوچتی تھی کہ اگر شناختی کارڈ نہ ملا تو کیا ہوگا۔ میں نے علاقے کے لوگو ں سے سنا تھا سیکورٹی اہلکار مردوں کو پکڑ پکڑ کر لے جارہے تھے۔ "
علاقے کے ایک اور مکین فاروق رشید جن کا تعلق پنجاب سے ہے ان کا کہنا ہے کہ آپریشن والے دن وہ گھر میں ہی تمام دن محصور رہے اور کام پر بھی نہ جاسکے۔ ان کی دیہاڑی کا نقصان کون بھرے گا؟ آپریشن کے بعد وہ واپس پنجاب جانے کا ارادہ کررہے ہیں۔
اسلحہ کی بھرمار: مسائل کا اصل سبب
سول سوسائٹی کے کارکنوں کے مطابق کراچی سے ٹارگٹ کلنگ ختم کرنے کا سب سے اچھا طریقہ ناجائز اسلحہ کا خاتمہ ہے۔ ایک پچپن سالہ سوشل ورکر احسن صدیق کا کہنا ہے کہ ان کے اندازے کے مطابق شہر میں بیس ملین غیر قانونی چھوٹے ہتھیار موجودہیں۔ یہ جرائم کی اصل وجہ ہیں۔ ہاتھ میں ہتھیار موجود ہو تو بزدل سے بزدل شخص بھی من مانی کرتے ہوئے نہیں ڈرتا۔
انٹرنیشنل ایکشن نیٹ ورک آن اسمال آرمز (آئی اے این ایس اے )نامی عالمی ادارے کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق پاکستانی شہریوں کا شمار دنیا کے سب سے زیادہ ہتھیار رکھنے والے شہریوں میں ہوتا ہے۔ اگرچہ ملک میں ناجائز اور جائز اسلحہ اور ہتھیار کے درست اعدادو شمار دستیاب نہیں مگر ایک محتاط تخمینہ ہے کہ یہاں بیس ملین ہتھیار یا اسلحہ موجود ہے۔ صدیق کا کہنا ہے کہ جہاں اتنی بڑی تعداد میں ناجائز اسلحہ ہوگا وہاں تشدد کے واقعات عام بات تو ہوں گے ہی۔