لندن میں امریکی سفارت خانے کی سامنے اتوار کو القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے خلاف ’المھاجرون‘ نامی تنظیم نے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ اِس موقعے پر ڈیڑھ سو کے قریب مظاہرین نے القاعدہ کے سرغنے کی غائبانہ نمازِ جنازہ بھی ادا کی۔
لندن کے گروزنر اسکوائر میں اُس وقت سخت کشیدگی دیکھنے میں آئی جب انگلش ڈفنس لیگ کے ممبران امریکہ کے حق میں نعرے لگاتے ہوئے پہنچ گئے۔
بنیاد پرست تصور کی جانے والی دونوں تنظیموں میں ماضی میں بھی کئی بار تصادم ہوچکا ہے۔
برطانوی پولیس نے اِس موقعے پر ’المھاجرون‘ کی جانب سے اسامہ بن لادن کےحق میں کیے گئے مظاہرے پر برطانیہ کے مسلمان اراکین ِ پارلیمنٹ نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسی تنظیمیں برطانوی مسلمانوں کی نمائندگی نہیں کرتیں۔
’وائس آف امریکہ‘ سے گفتگو کرتے ہوئے ہاؤس آف لارڈز کے رکن اور لبرل ڈیموکریٹس کے راہمنا لارڈ قربان نے کہا کہ المھاجرون کسی کی بھی نمائندگی نہیں کرتے، وہ صرف اپنی نمائندگی کرتے ہیں، اور پبلسٹی کا کوئی بھی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔
برطانیہ میں انسانی حقوق کے علمبردار اور تجزیہ کار بیرسٹر اسلام وردگ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کےردِ عمل میں برطانیہ میں ممکنہ دہشت گردی کے خطرات سے اتفاق نہیں کرتے۔ اُن کے الفاظ میں ’ یہاں القاعدہ کا کوئی مؤثر سیل نہیں ہے کہ وہ اِس لیول پر کوئی بڑی کارروائی کرسکے۔‘
برطانوی حکمراں کنزرویٹو پارٹی کے رکن لارڈ طارق احمد نے بھی المھاجرون کی جانب سے لندن میں اسامہ بن لادن کے حق میں کیے گئے مظاہروں پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ شدت پسندوں نے سب سے زیادہ نقصان پاکستان کو پہنچایا ہے۔ اُن کے بقول، اسامہ بن لادن ہو، طالبان ہوں یا القاعدہ، اِن لوگوں نے وہاں کی زمین پر دہشت گردی پھیلادی ہے کہ ملک دنیا بھر میں ہر جگہ دہشت گردی کے نام سے جانا جاتا ہے۔