ان دنوں سائنسی اور غیر سائنسی حلقوں میں آسمان پر گردش کرنے والی ایک پراسرار چیز گفتگو کا موضوع بنی ہوئی ہے۔ یہ چیز سیارہ ہے اور نہ ہی ستارہ، اسے شہاب ثاقب بھی نہیں کہا جا رہا۔ کیونکہ اس کی شکل و صورت اور گردش کا انداز ان سب سے مختلف ہے۔
اس پراسرار چیز کا، جس کی شکل ایک سگریٹ یا سگار جیسی لمبوتری ہے، ہمارے نظام شمسی سے کوئی تعلق نہیں ہے اور یہ کسی اور شمسی نظام یا کہکشاں سے ہمارے سورج کی حکمرانی کے دائرے میں داخل ہوئی ہے۔ لیکن اس پر نظام شمسی کا کوئی کنٹرول بھی نہیں۔
ہارورڈ یونیورسٹی کے ماہرین فلکیات نے اس ہفتے یہ دعویٰ کر کے سب کو حیران اور متجسس کر دیا ہے کہ یہ تیز رفتار پراسرار چیز اصل میں کسی اور دنیا سے آنے والا ایک تحقیقاتی راکٹ ہے جسے ہمارے نظام شمسی اور ہماری زمین کے متعلق معلومات اکھٹی کرنے کی غرض سے کسی دوسرے سیارے کی ذہین مخلوق نے بھیجا۔
طاقت ور دوربینوں سے سگار نما پراسرار چیز کی جو تصویریں اتاری گئی ہیں، اس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اس کی سطح ہموار نہیں ہے۔ معلوم نہیں ہے کہ ذہین خلائی مخلوق نے زمین کی جاسوسی کے لیے بھیجے جانے والے’ راکٹ ‘کو کس مصلحت کے تحت ناہموار اور کھردرا رکھا اور لمبوتری شکل دی۔
ہارورڈ یونیورسٹی کے خلائی سائنس دانوں نے پراسرار راکٹ کو’ اومواموا ‘کا نام دیا ہے جس کا ہوائی کی زبان میں مطلب ہے، پیغام لانے والا۔
یہ پر اسرار چیز ہے کیا؟ سائنس دان اس کی وضاحت کرنے میں مشکل محسوس کر رہے ہیں کیونکہ اس کے حرکت کرنے کا انداز معمول سے ہٹ کر ہے اور یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ ہمارے نظام شمسی میں وہ کہاں سے داخل ہوا۔ کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ شہابیئے اور دم دار ستارے کا مرکب ہے، لیکن جو بھی ہے وہ اپنے انداز کی ایک منفرد چیز ہے۔
ہارورڈ یونیورسٹی کے سمتھ سونیئن سینٹر کے ماہرین فلکیات کا کہنا ہے کہ اس کی لمبائی، اس کی چوڑائی سے 10 گنا زیادہ ہے اور وہ ایک لاکھ 96 ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے حرکت کر رہا ہے۔ وہ کسی بھی لحاظ سے قدرتی سیارچہ یا شہابیہ نہیں ہے۔ اس کی لمبائی تقریباً 1300 فٹ اور چوڑائی 130 فٹ ہے۔ اس لحاظ سے وہ کسی مخلوق کا تیار کردہ خلائی جہاز یا خلائی راکٹ ہو سکتا ہے۔
فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کو اپنی ایک ای میل میں ہارورڈ یونیورسٹی کے ماہر فلکیات شمائل بیلی نے بتایا ہے کہ اومواموا ایک ایسے انداز میں حرکت کر رہا ہے جس کی وضاحت ممکن ہے، خاص طور پر اس کی رفتار، جس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ سورج کی روشنی سے توانائی حاصل کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کے خیال میں اس پر اسرار چیز کو خلائی مخلوق کنٹرول کر رہی ہے۔
ان کی یہ رائے فوراً ہی وائرل ہو گئی اور انتہائی تیز رفتاری سے حرکت کرنے والی پراسرار چیز، دیکھتے ہی دیکھتے سوشل میڈیا پر کسی دوسرے سیارے سے زمین کی جاسوسي کے لیے بھیجے گئے راکٹ کے طور پر مشہور ہو گئی اور اس پر تبصرے شروع ہو گئے۔
تاہم زیادہ تر ماہرین فلکیات اس رائے سے اتفاق نہیں کرتے۔ بلفاسٹ کی کوئینز یونیورسٹی کے ایک سائنس دان ایلن فٹز سائمنز کا کہنا ہے کہ بہت سے دوسرے سائنس دانوں کی طرح مجھے بھی یہ تصور اچھا لگے گا کہ یہ زمین سے باہر کسی مخلوق کی موجودگی کا ایک ثبوت مل جائے، لیکن ایسا ہے نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کے خواص یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ کسی دوسرے نظام شمسی سے آنے والے دم دار ستارے جیسا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس کے متعلق میڈیا پر جو دعوے کیے جا رہے ہیں وہ زیادہ تر ناممکنات پر مبنی ہیں۔
نارتھ کیرولائنا سٹیٹ یونیورسٹی کی ایک ماہر فلکیات کیٹی مارک کا کہنا ہے کہ اس چھوٹی سی پراسرار چیز کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس کے خلائی مخلوق سے تعلق ہونے کے نظریے کی درستگی کا اگر رتی بھر بھی امکان ہوتا تو سائنس دان بہت خوش ہوتے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں یہ نہیں کہوں گی کہ اسے خلائی مخلوق نے بھیجا ہے کیونکہ میں ایک سائنس دان ہوں۔ میں ٹھوس شواہد پر یقین رکھتی ہوں۔
پراسرار خلائی چیز پر تحقیق کرنے والے شریک مصنف اور ہارورڈ یونیورسٹی کے شعبہ فلکیات کے چیئر مین ایوی لوئب نے این بی سی نیوز کو بتایا کہ اس پراسرار چیز کے بارے میں آپ مزید معلومات اب شاید کبھی حاصل نہ کر سکیں کیونکہ وہ یہاں سے بہت دور چلی گئی ہے اور یہ امکان موجود نہیں ہے کہ کبھی واپس بھی آئے۔ ان کا کہنا تھا کہ مستند معلومات کے بغیر اومواسوا کے متعلق کوئی قیاس کرنا ممکن نہیں۔
اوسواموا کو پچھلے سال اکتوبر میں دوربینوں کی مدد سے دیکھا گیا تھا۔ لیکن اس کے متعلق رپورٹ اس سال 12 نومبر کو فلکیات سے متعلق ایک جریدے’ آسٹرو فیزیکل جرنل لیٹرز‘میں شائع ہو رہی ہے۔