سمندر کی گہرائی سے آنے والی آواز سے ان ماہرین اور کارکنوں کا حوصلہ بڑھا ہے جو بحر اوقیانوس کی گہرائیوں میں لاپتہ ہونے والی مہماتی آب دوز ٹائیٹن کو ڈھونڈ رہے ہیں۔ لیکن دوسری جانب آب دوزیں اور ان کا عملہ فراہم کرنے والی ایک کمپنی اوشن گیٹ نے کہا ہے کہ دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹائیٹن میں حادثاتی صورتحال سے نمٹنے کے لیے مناسب انتظام موجود نہیں تھا۔
امریکی کوسٹل گارڈ کے کیپٹن جیمی فریڈرک نے بدھ کو ایک نیوز کانفرنس میں بتایا کہ ٹائیٹن کی تلاش جاری ہے اور سمندر سے آنے والی آواز کی سمت ڈرون بھیج دیا گیا ہےلیکن ابھی تک آب دوز کا پتہ نہیں چلا۔ ان کا کہنا تھا کہ تلاش کا کام ہمیشہ امید کی بنیاد پر کیا جاتا ہے، لیکن ابھی ہم یقین کے ساتھ کہہ نہیں کہہ سکتے کہ آواز کی نوعیت کیا ہے۔ اس کا تجزیہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوا۔
ٹائیٹن کے مسافروں کو بچانے کی مہلت میں محض چند گھنٹے باقی
بحراوقیانوس میں عشروں پہلے ڈوب جانے والے جہاز ٹائٹینک کے ملبے کو دیکھنے کے لیے جانے والی ایک چھوٹی آب دوز میں سوار پانچ افراد کے پاس اب بہت کم وقت باقی رہ گیا ہے کیونکہ اتوار کے روز جب ٹائیٹن نامی آب دوز نے اس سیاحتی مہم کا آغاز کیا تو اس میں پانچ دن کے لیے آکسیجن کا ذخیرہ تھا جسے ختم ہونے میں اب چند ہی گھنٹے باقی ہیں۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹائیٹن کے مسافر اپنی نقل و حرکت محدود کر کے اور زیادہ سے زیادہ وقت لیٹ کر کچھ آکسیجن بچا سکتے ہیں جو انہیں مزید کچھ وقت تک زندہ رکھ سکتی ہے۔
سیاحتی مشن پر روانہ ہونے والی آب دوز کا صرف ایک گھنٹے اور 45 منٹ کے بعد زمین سے رابطہ ٹوٹ گیا تھا۔جس کے بعد سے ارب پتی مہم جوؤں پر کیا گزر رہی ہے، کسی کو کچھ معلوم نہیں ہے۔
تلاش میں کئی ملک اور ماہرین شامل
ٹائیٹن کی تلاش کے لیے کئی ملکوں کے ماہرین سرگرم ہیں جنہیں طیاروں، بحری جہازوں، پانی کی گہرائیوں میں جانے والے ڈرون اور جدید ترین آلات کی مدد حاصل ہے۔
بدھ کی صبح کینیڈا کے ایک جہاز نے سمندر کی گہرائی میں آواز کا کھوج لگایا تھا،جس کے بعد اس جانب توجہ مرکوز کر دی گئی ہے۔
SEE ALSO: لاپتا آب دوز کی تلاش کے دوران 'زیرِ آب آوازیں' سنی گئیں: امریکی کوسٹ گارڈآواز کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ یہ ایک گونج جیسی آواز تھی جیسے کوئی چیز کسی سے ٹکرائی ہو۔یہ آواز تقریباً ہر 30 منٹ کے بعد سنی گئی۔
ٹائیٹن کی تلاش میں مصروف ٹیمیں اب تک 26 ہزار مربع کلومیٹر سے زیادہ سمندر کو چھان چکی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر آب دوز کے مقام کی نشاندہی ہو بھی جائے تو تقریباً 3800 میٹر کی گہرائی میں سے اسے نکالنا انتہائی دشوار کام ہے کیونکہ یہ کام آب دوز میں آکسیجن کی گھٹتی ہوئی مقدار کے پیش نظر محدود وقت میں انجام دینا ہو گا۔
آواز پر ہی توجہ کیوں؟
ماہرین کہتے ہیں کہ چونکہ آب دوز کے عملے کا زمین سے رابطہ ٹوٹا ہوا ہے ۔ ان کے پاس اس کے سوا کوئی اور ذریعہ نہیں ہے کہ وہ آواز پیدا کر کے تلاش کرنے والوں کو اپنی موجودگی کی اطلاع دیں۔ آواز پیدا کرنے کے لیے شاید وہ کوئی چیز آب دوز کی دیوار سے ٹکراتے ہوں گے تاکہ آواز کا کھوج لگانے والے آلات کو ان کے مقام کا علم ہو سکے۔
آب دوزوں اور امدادی کارروائیوں کے ایک ماہر فرینک اوین کہتے ہیں کہ ’ آواز پیدا کر کے پیغام بھیجنا ایک فوجی طریقہ کار ہے کہ میں یہاں موجود ہوں۔ یہ ایک حوصلہ افزا بات ہے‘۔
ایک برطانوی مہم جو کرس براؤن نے امریکی ٹی وی چینل اے بی سی کو بتایا کہ آواز اس چیز کی علامت ہے کہ ٹائیٹن کے اندر موجود لوگ زندہ ہیں۔ کرس نے بھی اس سفر پر جانے کے لیے رقم کی ادائیگی کی تھی لیکن بعد میں آب ودز کے حفاظتی انتظامات پر اطمینان نہ ہونے کے باعث انہوں نے اپنا ارادہ ترک کر دیا تھا۔
آرون نیومین ماضی میں لاپتہ ہونے والی آب دوز پر سفر کر چکے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ٹائیٹن کے اندر کسی ہنگامی صورت حال میں اسے دوبارہ سمندر کی سطح پر لانے کے لیے کئی متبادل انتظامات موجود ہیں ۔انہوں نے بدھ کے روز این سی بی نیوز میں اس خدشے کا اظہار کیا کہ بجلی کی فراہمی رک جانے سے ٹائیٹن میں مکمل تاریکی ہو گی اور اس کے علاوہ سمندر کی تہہ میں بہت ٹھنڈ ہوتی ہے۔بجلی منقطع ہونے سے آب دوز کو گرم رکھنے کا انتظام بھی کام نہیں کر رہا ہوگا۔آب دوز کے مسافروں کو اپنے آپ کو گرم رکھنے کے لیے وہ سب کچھ کرنا ہو گا جو وہ کر سکتے ہیں۔
ٹائیٹن کے حفاظتی انتظامات پر شہبات
ایک ایسے وقت میں جب کہ بحر اقیانوس کی گہرائیوں میں لاپتہ ہونے والی آب دوز ٹائیٹن کی تلاش زور شور سے جاری ہے، میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹائیٹن کو بناتے وقت حادثے کی صورتحال میں مشکلات سے نمٹنے کے لیے انتظامات پر توجہ نہیں دی گئی تھی۔
اوشن گیٹ کے ڈائریکٹر ڈیوڈ لوکریج کہتے ہیں کہ 2018 میں اس آب دوز کے بارے میں ایک مقدمہ دائر ہوا تھا جس میں کہا گیا تھا اس کے حفاظتی انتظامات کی جانچ پڑتال درست طور پر نہیں ہوئی جس کی وجہ سے اس کے مسافروں کے لیے شدید نوعیت کے خطرات کا امکان موجود ہے۔
تاہم ٹائیٹن کی کمپنی نے اپنے جواب میں کہا تھا کہ لوکریج نہ تو انجنیئر ہیں اور نہ ہی کمپنی نے انہیں ٹائیٹن پر سروسز مہیا کرنے کے لیے کہا ہے۔کمپنی کا یہ بھی کہنا تھا کہ ٹائیٹن ایک تجرباتی ماڈل ہے۔
بعض میڈیا رپورٹس میں اس جانب بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ آب دوز میں غیر معیاری سامان اور آلات استعمال کیے گئے ، مثال کے طور پر اس کے الیکٹرانک آلات کو چلانے والے کنٹرول وہی ہیں جو عام ویڈیو گیمز کھیلنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ آب دوز میں باہر دیکھنے کے لیے لگایا جانے والا شیشہ بھی زیر آب انتہائی گہرائی کے لیے محفوظ نہیں ہے۔
ٹائیٹن کی ساخت اور نصب آلات
اوشن گیٹ کے ریکارڈ کے مطابق ٹائیٹن کو زیر آب 4000 میٹر کی گہرائی تک جانے کے لیے تیار کیا گیا ہے، جب کہ تاریخی جہاز ٹائیٹینک کا ملبہ 3800 میٹر کی گہرائی میں پڑا ہے۔چنانچہ اس گہرائی تک جانے کے لیے وہ محفوظ ہے۔
آب دوز کی لمبائی 22 فٹ اور وزن 21 ہزار پاؤنڈ ہے۔ وہ ساڑھے تین میل فی گھنٹہ کی رفتار سے پانی میں سفر کر سکتی ہے۔ اس میں طاقت ور ایل ای ڈی لائٹس، جدید ترین کیمرے اور آواز کے ذریعے راستوں کا پتہ چلانے والا نظام نصب ہے۔
ٹائیٹن میں مسافروں کے بیٹھنے کا انتظام فرش پر کیا گیا ہے اور وہ آرام کے لیے اپنی کمر آب دوز کی دیوار پر لگا کر بیٹھ سکتے ہیں۔ آب دوز کے اندر ایک محدود نوعیت کی ٹائلیٹ بھی مہیا کی گئی ہے۔
ٹائیٹن میں کون سوار ہے؟
ٹائیٹن میں پانچ افراد پھنسے ہوئے ہیں جن میں دو پاکستانی بھی ہیں۔جن کی شناخت شہزادہ داؤد اور ان کے جوان بیٹے سلیمان داؤد کے طور پر ظاہر کی گئی ہے۔ ان کا تعلق پاکستان کے ایک نمایاں کاروباری گروپ 'داؤد ہرکولیس کارپوریشن' سے ہے۔
باقی تین مسافروں میں برطانوی بزنس مین ہیمش ہارڈنگ ، ٹائٹینک پر تحقیق کرنے والے ایک فرانسیسی ماہر پال ہنری نارگیولٹ اور پانچویں آب دوز کے پائلٹ اسٹاکن رش ہیں جو سمندری مہم جوئی کے لیے خدمات فراہم کرنے والی کمپنی کے سربراہ بھی ہیں۔
( اس رپورٹ کے لیے کچھ معلومات رائٹرز اور ایسوسی ایٹڈپریس سے لی گئیں ہیں)