امریکی خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق ستمبر میں سعودی عرب میں حج کے دوران کم از کم 2,411 حاجی ہلاک ہوئے۔ یہ تعداد سعودی عرب کی طرف سے سرکاری طور پر جاری کئے گئے اعداد و شمار سے تین گنا زیادہ ہے۔
اے پی کے اعداد و شمار سے ثابت ہوتا ہے کہ 24 ستمبر کو منیٰ میں بھگدڑ حج کی تاریخ کا مہلک ترین واقعہ تھی۔ اس سے چند دن قبل مکہ میں ایک کرین گرنے سے بھی درجنوں عازمین حج ہلاک ہوگئے تھے۔
سعودی عرب نے علاقائی حریف ایران کی تنقید اور دیگر ملکوں کی جانب سے واقعے کی تحقیقات میں شامل ہونے کی کوششوں کو مسترد کر دیا تھا۔ اگرچہ سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان نے فوری طور پر واقعے کی تحقیقات کا حکم دیا تھا مگر اس کی کوئی تفصیلات ابھی نہیں بتائی گئیں۔
اے پی کے اعداد و شمار 180 میں سے 36 ملکوں کے سرکاری میڈیا اور سرکاری بیانات پر مبنی ہیں جن کے شہریوں نے اس سال حج کے لیے سعودی عرب کا سفر کیا تھا۔ اس دوران گم ہونے والے سینکڑوں افراد اب بھی لاپتا ہیں۔ سعودی عرب نے سرکاری طور پر 769 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے اور 26 ستمبر کے بعد سے اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی جبکہ حکام نے ان اعداد و شمار میں تضاد کی وضاحت بھی نہیں کی۔
سرکاری خبررساں ادارے سعودی پریس ایجنسی نے 19 اکتوبر کے بعد اس واقعے کی تحقیقات کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ 19 اکتوبر کو ادارے نے کہا تھا کہ ولی عہد محمد بن نائف جو وزیر داخلہ بھی ہیں، نے ’’تحقیقات میں پیش رفت کی یقین دہانی کرائی ہے۔‘‘
حکام نے کہا ہے کہ منیٰ میں اس وقت بھگرڑ مچی جب دو راستوں سے آنے والے حاجی ایک تنگ سڑک پر جمع ہو گئے اور وہاں موجود کئی افراد دم گھٹنے یا پاؤں تلے کچلے جانے سے ہلاک ہو گئے۔ سعودی عرب نے پانچ روزہ حج کے دوران رش پر قابو پانے اور حفاظتی اقدامات پر اربوں ڈالر خرچ کیے ہیں۔
اس سال 20 لاکھ سے زائد مسلمان حج کے لیے سعودی عرب گئے۔ اگرچہ ماضی میں ایک سال میں 30 لاکھ افراد بھی حج کر چکے ہیں مگر اس وقت ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا۔
اے پی کے مطابق 464 شہریوں کی ہلاکت کے ساتھ ایران اس بھگدڑ میں سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ مالی نے کہا ہے کہ اس کے 305 شہری ہلاک ہوئے، نائیجیریا کے 274 شہری جبکہ مصر کے 190 شہری ہلاک ہوئے۔
دیگر ہلاک شدگان میں 137 بنگلہ دیش سے تھے، 129 انڈونیشیا، 120 بھارت، 103 کیمرون، 102 پاکستان، 92 نائیجر، 61 سینیگال، 53 ایتھوپیا، 52 آئیوری کوسٹ، 50 بنین، 46 الجیریا، 43 چاڈ، 42 مراکش، 30 سوڈان، 25 تنزانیہ، 22 برکینا فاسو، 12 کینیا، 10 صومالیہ، سات سات گھانا، تیونس اور ترکی سے، چھ چھ لیبیا اور میانمار سے، چار چین سے، دو دو افغانستان، جبوتی، گیمبیا اور اردن سے، اور ایک ایک لبنان، ملائشیا، فلپائن اور سری لنکا سے تھے۔
اس سے قبل 1990 میں حج کا پہلا مہلک ترین واقعہ ہوا تھا جس میں 1,426 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
منی بھگدڑ سے قبل 11 ستمبر کو مکہ میں کرین گرنے سے 111 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔