پاکستان کے وزیر مملکت برائے داخلہ امتیاز صفدر وڑائچ نے کہا کہ افغان خفیہ ادارے کے سربراہ پر خود کش حملے سے متعلق افغانستان نے قابل عمل معلومات فراہم کیں تو کارروائی ضرور کی جائے گی۔
اسلام آباد —
افغان صدر حامد کرزئی نے ہفتہ کی صبح کابل میں ایک پرس کانفرنس میں کہا تھا کہ ان کے ملک کے انٹیلی جنس ادارے کے سربراہ اسد اللہ خالد پر حال ہی میں ہونے والے حملے کی منصوبہ بندی کوئٹہ میں کی گئی تھی۔
جمعرات کے روز افغان نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکورٹی کے سربراہ اسد اللہ خالد پر کابل میں خود کش حملے کی ذمہ داری شدت پسند طالبان نے قبول کی تھی مگر افغان صدر کا کہنا تھا کہ یہ حملہ انتہائی مہارت سے کیا گیا اور عسکریت پسند دارالحکومت کے مرکز میں ایسی کارروائی کی اہلیت نہیں رکھتے۔
انہوں نے کہا کہ وہ اس معاملے کو آئندہ ہفتے ترکی میں ہونے والے سہ فریقی مذاکرات میں پاکستانی حکام سے ملاقات میں اٹھائیں گے۔
’’یقیناً ہم پاکستان سے وضاحت چاہیں گے کیونکہ ہم جانتے ہیں، جو کہ حقیقت ہے کہ وہ شخص یعنی حملہ آور پاکستان سے آیا تھا اور ایک مہمان کی صورت میں اسد اللہ خالد سے ملا ۔‘‘
تاہم افغان صدر نے کہا کہ اس واقعے سے دونوں ملکوں کی جانب سے کی جانے والی قیام امن کی مشترکہ کوششوں کے عمل پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
دریں اثناء پاکستان کے وزیر مملکت برائے داخلہ امتیاز صفدر وڑائچ نے کہا ہے کہ افغان خفیہ ادارے کے سربراہ پر خود کش حملے سے متعلق کابل سے موصول ہونے والی معلومات پر ضرور کارروائی کی جائے گی۔
وائس آف امریکہ سے ہفتے کے روز گفتگو میں انہوں نے کہا کہ اس واقعے میں پاکستانی ریاست کا کوئی عمل دخل نہیں کیونکہ ’’پر امن اور مضبوط افغانستان‘‘ اسلام آباد کے مفاد میں ہے۔
’’اس حملے سے پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں۔۔۔اگر افغانستان کے پاس غیر ریاستی عناصر کی اس حملے میں ملوث ہونے کے قابل عمل معلومات ہیں تو ہم اس پر کارروائی کرنے کو تیار ہے۔‘‘
امتیاز وڑائچ نے ان الزامات کی تردید کی کہ پاکستان افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ قائم رکھنے کے لیے وہاں کے چند عسکری دھڑوں کی حمایت کرتا ہے اور ان کے رہنماء پاکستان کے جنوب مغربی شہر کوئٹہ میں مبینہ طور پر ایک ’’کوئٹہ شورہ‘‘ بنا کر افغانستاں میں بد امنی پھیلا رہے ہیں۔
’’اگر ہم ان (طالبان) کی حمایت کرتے تو پھر 40 ہزار لوگوں کی قربانی دینے کا کیا مقصد تھا، کوئٹہ یا کہیں بھی اگر دہشت گرد گروہ ہیں تو ہم ان کے خلاف ہیں۔‘‘
پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں حال ہی میں بہتری دیکھی گئی ہے اور پاکستان کی جانب سے افغان اعلیٰ امن کونسل کی درخواست پر افغان مفاہمتی عمل کو آگے بڑھانے کے لیے 13 طالبان بھی رہا کیے گئے۔
آئندہ ہفتے ترکی میں افغانستان، پاکستان اور ترکی کے درمیان سہ فریقی مذاکرات ہو رہے ہیں۔ اقتصادی اور تجارتی شعبوں میں تعاون کے علاوہ اجلاس میں خطے اور بالخصوص افغانستان میں دیر پا قیام امن کے لیے کی جانے والی کوششوں پر بات چیت ہوگی۔
جمعرات کے روز افغان نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکورٹی کے سربراہ اسد اللہ خالد پر کابل میں خود کش حملے کی ذمہ داری شدت پسند طالبان نے قبول کی تھی مگر افغان صدر کا کہنا تھا کہ یہ حملہ انتہائی مہارت سے کیا گیا اور عسکریت پسند دارالحکومت کے مرکز میں ایسی کارروائی کی اہلیت نہیں رکھتے۔
انہوں نے کہا کہ وہ اس معاملے کو آئندہ ہفتے ترکی میں ہونے والے سہ فریقی مذاکرات میں پاکستانی حکام سے ملاقات میں اٹھائیں گے۔
’’یقیناً ہم پاکستان سے وضاحت چاہیں گے کیونکہ ہم جانتے ہیں، جو کہ حقیقت ہے کہ وہ شخص یعنی حملہ آور پاکستان سے آیا تھا اور ایک مہمان کی صورت میں اسد اللہ خالد سے ملا ۔‘‘
تاہم افغان صدر نے کہا کہ اس واقعے سے دونوں ملکوں کی جانب سے کی جانے والی قیام امن کی مشترکہ کوششوں کے عمل پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
دریں اثناء پاکستان کے وزیر مملکت برائے داخلہ امتیاز صفدر وڑائچ نے کہا ہے کہ افغان خفیہ ادارے کے سربراہ پر خود کش حملے سے متعلق کابل سے موصول ہونے والی معلومات پر ضرور کارروائی کی جائے گی۔
وائس آف امریکہ سے ہفتے کے روز گفتگو میں انہوں نے کہا کہ اس واقعے میں پاکستانی ریاست کا کوئی عمل دخل نہیں کیونکہ ’’پر امن اور مضبوط افغانستان‘‘ اسلام آباد کے مفاد میں ہے۔
’’اس حملے سے پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں۔۔۔اگر افغانستان کے پاس غیر ریاستی عناصر کی اس حملے میں ملوث ہونے کے قابل عمل معلومات ہیں تو ہم اس پر کارروائی کرنے کو تیار ہے۔‘‘
امتیاز وڑائچ نے ان الزامات کی تردید کی کہ پاکستان افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ قائم رکھنے کے لیے وہاں کے چند عسکری دھڑوں کی حمایت کرتا ہے اور ان کے رہنماء پاکستان کے جنوب مغربی شہر کوئٹہ میں مبینہ طور پر ایک ’’کوئٹہ شورہ‘‘ بنا کر افغانستاں میں بد امنی پھیلا رہے ہیں۔
’’اگر ہم ان (طالبان) کی حمایت کرتے تو پھر 40 ہزار لوگوں کی قربانی دینے کا کیا مقصد تھا، کوئٹہ یا کہیں بھی اگر دہشت گرد گروہ ہیں تو ہم ان کے خلاف ہیں۔‘‘
پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں حال ہی میں بہتری دیکھی گئی ہے اور پاکستان کی جانب سے افغان اعلیٰ امن کونسل کی درخواست پر افغان مفاہمتی عمل کو آگے بڑھانے کے لیے 13 طالبان بھی رہا کیے گئے۔
آئندہ ہفتے ترکی میں افغانستان، پاکستان اور ترکی کے درمیان سہ فریقی مذاکرات ہو رہے ہیں۔ اقتصادی اور تجارتی شعبوں میں تعاون کے علاوہ اجلاس میں خطے اور بالخصوص افغانستان میں دیر پا قیام امن کے لیے کی جانے والی کوششوں پر بات چیت ہوگی۔