جنرل کیانی نے امریکی کمانڈر جنرل جوزف ڈنفورڈ سے کہا ہے کہ بین الاقوامی افواج افغان سر زمین سے پاکستانی حدود میں حملوں کو روکنے میں مدد کریں۔
اسلام آباد —
پاکستان فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور افغانستان میں امریکی کمانڈر جنرل جوزف ڈنفورڈ کے درمیان پیر کو راولپنڈی میں ملاقات ہوئی۔
افغانستان میں تعینات بین الاقوامی اتحادی افواج ’ایساف‘ کے امریکی کمانڈر جنرل جوزف ڈنفورڈ کا اپنی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد پاکستان کا یہ پہلا دورہ تھا
راولپنڈی میں پاکستانی فوج کے صدر دفتر میں جنرل اشفاق پرویز کیانی اور جنرل جوزف ڈنفورڈ کے درمیان ہونے والی ملاقات میں باہمی دلچسپی کے اُمور کے علاوہ خاص طور پر پاک افغان سرحدی علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف موثر کارروائی کے لیے تعاون کو مزید مضبوط بنانے پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ’آئی ایس پی آر‘ سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق جنرل کیانی نے امریکی کمانڈر سے کہا ہے کہ بین الاقوامی افواج افغان سر زمین سے پاکستانی حدود میں حملوں کو روکنے میں مدد کریں۔
جنرل کیانی نے پاکستان کے موقف کو دہراتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں قیام امن کے لیے افغانوں کی زیر قیادت ہر عمل کی حمایت کی جائے گی۔
بیان کے مطابق جنرل ڈنفورڈ نے کہا کہ افغانستان، پاکستان اور بین الاقوامی برادری سب ہی خطے میں امن کے خواہاں ہیں اور اُن کے بقول اس مقصد کے حصول کے لیے باہمی رابطے سب سے اہم ہیں۔
حالیہ ہفتوں میں پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں بظاہر تناؤ آیا ہے اور گزشتہ ہفتے ہی افغان صدر حامد کرزئی کے ترجمان سے منسوب ایک بیان سامنے آیا جس میں کہا گیا کہ افغانستان میں قیام امن اور مصالحتی کوششوں میں تعاون کے لیے پاکستان نے پیشگی شرائط عائد کر رکھی ہیں۔
لیکن پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان اعزاز احمد چوہدری نے ایک تحریری بیان میں اسے رد کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد افغانستان کے مصالحتی عمل اور امن کی کوششوں کی غیر مشروط حمایت کرتا ہے۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ پاکستان محض یہ چاہتا ہے کہ افغانستان میں اُن بیرونی قوتوں کی حوصلہ شکنی کی جائے جو پاکستان میں عدم استحکام کے لیے افغان سر زمین استعمال کرتی ہیں۔
پاکستانی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ وادی سوات اور قبائلی علاقوں میں فوجی کارروائی کے بعد فرار ہونے والے دہشت گردوں نے سرحد پار افغانستان میں اپنی پناہ گاہیں قائم کر رکھی ہیں جہاں سے وہ پاکستان کے سرحدی علاقوں اور فوجی تنصیبات پر حملے کرتے آئے ہیں۔
افغانستان میں تعینات بین الاقوامی اتحادی افواج ’ایساف‘ کے امریکی کمانڈر جنرل جوزف ڈنفورڈ کا اپنی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد پاکستان کا یہ پہلا دورہ تھا
راولپنڈی میں پاکستانی فوج کے صدر دفتر میں جنرل اشفاق پرویز کیانی اور جنرل جوزف ڈنفورڈ کے درمیان ہونے والی ملاقات میں باہمی دلچسپی کے اُمور کے علاوہ خاص طور پر پاک افغان سرحدی علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف موثر کارروائی کے لیے تعاون کو مزید مضبوط بنانے پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ’آئی ایس پی آر‘ سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق جنرل کیانی نے امریکی کمانڈر سے کہا ہے کہ بین الاقوامی افواج افغان سر زمین سے پاکستانی حدود میں حملوں کو روکنے میں مدد کریں۔
جنرل کیانی نے پاکستان کے موقف کو دہراتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں قیام امن کے لیے افغانوں کی زیر قیادت ہر عمل کی حمایت کی جائے گی۔
بیان کے مطابق جنرل ڈنفورڈ نے کہا کہ افغانستان، پاکستان اور بین الاقوامی برادری سب ہی خطے میں امن کے خواہاں ہیں اور اُن کے بقول اس مقصد کے حصول کے لیے باہمی رابطے سب سے اہم ہیں۔
حالیہ ہفتوں میں پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں بظاہر تناؤ آیا ہے اور گزشتہ ہفتے ہی افغان صدر حامد کرزئی کے ترجمان سے منسوب ایک بیان سامنے آیا جس میں کہا گیا کہ افغانستان میں قیام امن اور مصالحتی کوششوں میں تعاون کے لیے پاکستان نے پیشگی شرائط عائد کر رکھی ہیں۔
لیکن پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان اعزاز احمد چوہدری نے ایک تحریری بیان میں اسے رد کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد افغانستان کے مصالحتی عمل اور امن کی کوششوں کی غیر مشروط حمایت کرتا ہے۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ پاکستان محض یہ چاہتا ہے کہ افغانستان میں اُن بیرونی قوتوں کی حوصلہ شکنی کی جائے جو پاکستان میں عدم استحکام کے لیے افغان سر زمین استعمال کرتی ہیں۔
پاکستانی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ وادی سوات اور قبائلی علاقوں میں فوجی کارروائی کے بعد فرار ہونے والے دہشت گردوں نے سرحد پار افغانستان میں اپنی پناہ گاہیں قائم کر رکھی ہیں جہاں سے وہ پاکستان کے سرحدی علاقوں اور فوجی تنصیبات پر حملے کرتے آئے ہیں۔