وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کہا کہ مجوزہ قومی سلامتی پالیسی جامع ہو گی اور اس کے دو مرکزی جز ہوں گے۔ ایک جز اندرونی معاملات جب کہ دوسرا بیرونی اور اسٹریٹیجک معاملات کا احاطہ کرے گا۔
اسلام آباد —
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے دہشت گردی کے خلاف اپنی حکمتِ عملی کے بعض خد و خال کا اعلان کرتے ہوئے ملک سے اس لعنت کے مکمل خاتمے کے عزم کو دہرایا ہے۔
وفاقی وزیرِ داخلہ چودھری نثار علی خان نے منگل کو اسلام آباد میں نیوز کانفرس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی فی الوقت صرف ایک خواہش ہے کہ ’’خطے میں امن آئے، پاکستان کے چپے چپے کی حفاظت ہو۔‘‘
وفاقی وزیر نے کہا کہ اس مقصد کے حصول کے لیے حکومت اپنی پالیسی وضع کرنے میں مصروف ہے اور اس عمل میں تمام سیاسی جماعتوں اور قوم کو ساتھ لے کر چلنا چاہتی ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ مجوزہ پالیسی جامع ہو گی اور اس کے دو مرکزی جز ہوں گے۔ ایک جز اندرونی معاملات جب کہ دوسرا بیرونی اور اسٹریٹیجک معاملات کا احاطہ کرے گا۔
چودھری نثار علی خان نے بتایا کہ مختلف اداروں کی جانب سے اکھٹی کی جانے والی خفیہ معلومات کے جائزے اور ان کے تناظر میں ضروری اقدامت کے لیے ان کا مشترکہ مرکز ’’جوائنٹ انٹیلی جنس سکریٹیریٹ‘ قائم کیا جا رہا ہے، جہاں تمام سول و عسکری خفیہ اداروں کی معلومات کا جائزہ لیا جائے گا۔
’’اس کی ہم جدید خطوط پر تشکیل کر رہے ہیں ... اُدھر بیک وقت ہزاروں تجربہ کار لوگ 24 گھنٹے کام کر رہے ہوں گے۔‘‘
اُنھوں نے بتایا کہ خطرات سے متعلق معلومات موصول ہونے پر ان کے خلاف فوری کارروائی کے لیے خصوصی فورس بھی تشکیل دی جائے گی، جس میں ابتدائی طور پر 500 اہلکار شامل ہوں گے۔
اُدھر پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف نے دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے مابین تعاون بڑھانے پر زور دیا ہے۔
اُنھوں نے منگل کی صبح وزارت داخلہ کا دورہ کیا جہاں اُنھیں انسداد دہشت گردی سے متعلق نئی مجوزہ پالیسی پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔
اُنھوں نے متعلقہ حکام کو ہدایت کی کہ نئی پالیسی میں دہشت گردی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے موثر طریقہ کار وضع کیا جائے اور اس ضمن میں وزیر اعظم نے وفاق اور صوبوں کے درمیان رابطے کے مربوط نظام کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
وزیر اعظم نے کہا کہ دہشت گردی صرف ایک علاقے تک محدود نہیں اس لیے ملک میں قیام امن اور استحکام کے لیے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔
ملک میں حالیہ ہفتوں میں ایک مرتبہ پھر دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے جس میں درجنوں افراد ہلاک و زخمی ہو چکے ہیں۔
موجودہ حکومت دو ماہ قبل اقتدار میں آنے کے بعد ہی سے یہ کہتی آئی ہے کہ ملک میں امن و امان کا قیام اس کی ترجیحات میں شامل ہے۔
دہشت گردی و انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے ایک متفقہ حکمت عملی وضع کرنے کے لیے حکومت نے ایک اجلاس بھی منعقد کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن بعد ازاں اسے موخر کر دیا گیا۔
حالیہ دنوں میں ملک کے مختلف حصوں خصوصاً صوبہ بلوچستان میں دہشت گردی کے ہلاکت خیز واقعات پیش آئے ہیں جن میں اعلیٰ پولیس افسران سمیت 50 سے زائد ہلاک ہوئے۔
ایسے واقعات کے تناظر میں حزب مخالف اور بعض ناقدین کی طرف سے قومی سلامتی کی پالیسی وضع کرنے میں تاخیر پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
تاہم اس تنقید کو رد کرتے ہوئے وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت دہشت گردی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے صرف پالیسی اعلان نہیں کرنا چاہتی بلکہ ان کے بقول نتیجہ خیز حکمت عملی تیار کرنے پر سنجیدگی سے کام کر رہی ہے۔
اُدھر وزیراعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی اور اُمور خارجہ سرتاج عزیز نے بھی منگل کو ایک تقریب سے خطاب میں کہا کہ حکومت مکمل کامیابی حاصل ہونے تک دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھے گی۔
وفاقی وزیرِ داخلہ چودھری نثار علی خان نے منگل کو اسلام آباد میں نیوز کانفرس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی فی الوقت صرف ایک خواہش ہے کہ ’’خطے میں امن آئے، پاکستان کے چپے چپے کی حفاظت ہو۔‘‘
وفاقی وزیر نے کہا کہ اس مقصد کے حصول کے لیے حکومت اپنی پالیسی وضع کرنے میں مصروف ہے اور اس عمل میں تمام سیاسی جماعتوں اور قوم کو ساتھ لے کر چلنا چاہتی ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ مجوزہ پالیسی جامع ہو گی اور اس کے دو مرکزی جز ہوں گے۔ ایک جز اندرونی معاملات جب کہ دوسرا بیرونی اور اسٹریٹیجک معاملات کا احاطہ کرے گا۔
چودھری نثار علی خان نے بتایا کہ مختلف اداروں کی جانب سے اکھٹی کی جانے والی خفیہ معلومات کے جائزے اور ان کے تناظر میں ضروری اقدامت کے لیے ان کا مشترکہ مرکز ’’جوائنٹ انٹیلی جنس سکریٹیریٹ‘ قائم کیا جا رہا ہے، جہاں تمام سول و عسکری خفیہ اداروں کی معلومات کا جائزہ لیا جائے گا۔
’’اس کی ہم جدید خطوط پر تشکیل کر رہے ہیں ... اُدھر بیک وقت ہزاروں تجربہ کار لوگ 24 گھنٹے کام کر رہے ہوں گے۔‘‘
اُنھوں نے بتایا کہ خطرات سے متعلق معلومات موصول ہونے پر ان کے خلاف فوری کارروائی کے لیے خصوصی فورس بھی تشکیل دی جائے گی، جس میں ابتدائی طور پر 500 اہلکار شامل ہوں گے۔
اُدھر پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف نے دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے مابین تعاون بڑھانے پر زور دیا ہے۔
اُنھوں نے منگل کی صبح وزارت داخلہ کا دورہ کیا جہاں اُنھیں انسداد دہشت گردی سے متعلق نئی مجوزہ پالیسی پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔
اُنھوں نے متعلقہ حکام کو ہدایت کی کہ نئی پالیسی میں دہشت گردی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے موثر طریقہ کار وضع کیا جائے اور اس ضمن میں وزیر اعظم نے وفاق اور صوبوں کے درمیان رابطے کے مربوط نظام کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
وزیر اعظم نے کہا کہ دہشت گردی صرف ایک علاقے تک محدود نہیں اس لیے ملک میں قیام امن اور استحکام کے لیے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔
ملک میں حالیہ ہفتوں میں ایک مرتبہ پھر دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے جس میں درجنوں افراد ہلاک و زخمی ہو چکے ہیں۔
موجودہ حکومت دو ماہ قبل اقتدار میں آنے کے بعد ہی سے یہ کہتی آئی ہے کہ ملک میں امن و امان کا قیام اس کی ترجیحات میں شامل ہے۔
دہشت گردی و انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے ایک متفقہ حکمت عملی وضع کرنے کے لیے حکومت نے ایک اجلاس بھی منعقد کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن بعد ازاں اسے موخر کر دیا گیا۔
حالیہ دنوں میں ملک کے مختلف حصوں خصوصاً صوبہ بلوچستان میں دہشت گردی کے ہلاکت خیز واقعات پیش آئے ہیں جن میں اعلیٰ پولیس افسران سمیت 50 سے زائد ہلاک ہوئے۔
ایسے واقعات کے تناظر میں حزب مخالف اور بعض ناقدین کی طرف سے قومی سلامتی کی پالیسی وضع کرنے میں تاخیر پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
تاہم اس تنقید کو رد کرتے ہوئے وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت دہشت گردی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے صرف پالیسی اعلان نہیں کرنا چاہتی بلکہ ان کے بقول نتیجہ خیز حکمت عملی تیار کرنے پر سنجیدگی سے کام کر رہی ہے۔
اُدھر وزیراعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی اور اُمور خارجہ سرتاج عزیز نے بھی منگل کو ایک تقریب سے خطاب میں کہا کہ حکومت مکمل کامیابی حاصل ہونے تک دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھے گی۔