ایک نوجوان احمدی برادری سے تعلق رکھنے والے خلیل احمد سے ملاقات کے لیے پولیس اسٹیشن میں داخل ہوا اور اُنھیں گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع شیخوپورہ میں پولیس کے مطابق توہین مذہب کے ایک مبینہ ملزم کو ایک مسلح نوجوان نے تھانے میں داخل ہو کر فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا گیا۔
یہ واقع جمعہ کو ضلع شیخوپورہ کے ایک علاقے شرق پور میں پیش آیا۔
احمدی برادری سے تعلق رکھنے والے 65 سالہ خلیل احمد پولیس کی تحویل تھے جن کے خلاف ایک مقامی شخص نے رواں ماہ توہین مذہب کا مقدمہ درج کروایا تھا۔
اطلاعات کے مطابق ایک نوجوان خلیل احمد سے ملاقات کے لیے پولیس اسٹیشن میں داخل ہوا اور اُنھیں گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔ پولیس کے مطابق نوجوان دسویں جماعت کا طالبعلم ہے اور اسے گرفتار کر لیا گیا ہے۔
احمدی برادری کے ایک ترجمان سلیم الدین نے خبر رساں ادارے ’رائیٹرز‘ کو بتایا کہ خلیل احمد اور تین دیگر افراد نے اپنے علاقے میں ایک دکاندار کو ایک پوسٹر ہٹانے کو کہا جس پر اُن کے بقول احمدی برادری سے متعلق نامناسب تحریر موجود تھی۔
سلیم الدین کے بقول اس کے ردعمل میں دکاندار نے خلیل احمد اور تین دیگر افراد کے خلاف توہین مذہب کے الزام پر ایف آئی آر درج کرا دی۔ خلیل احمد چار بچوں کے والد ہیں۔
گزشتہ ہفتے صوبہ پنجاب ضلع جھنگ میں ایک احتجاجی مظاہرے کے دوران مبینہ طور پر استعمال کیے گئے ’غلط کلمات‘ پر 68 وکلا کے خلاف توہین مذہب کا پرچہ درج کیا گیا تھا۔
پاکستان میں اس سے قبل بھی احمدی فرقے سے تعلق رکھنے والوں کو نشانہ بنائے جانے کے واقعات پیش آتے رہے ہیں۔ دو سال قبل لاہور میں دو مختلف واقعات میں احمدیوں کی عبادت کے مراکز پر حملے میں کم ازکم 80 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
پاکستان میں توہین مذہب سے متعلق قوانین کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے سول
سوسائٹی اور انسانی حقوق کی تنظیموں سمیت کئی حلقے ان قوانین میں ترامیم کا مطالبہ کرتے آئے ہیں۔
رواں ہفتے پاکستان کی عدالت عظمٰی کے چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے پشاور کے ایک چرچ پر حملے اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ سے متعلق ایک مقدمے کی سماعت میں کہا کہ ملک کا قانون کسی بھی مذہب کی توہین کی اجازت نہیں دیتا اور توہین مذہب کا قانون ہر مذہب کی تضحیک پر لاگو ہوتا ہے۔
یہ واقع جمعہ کو ضلع شیخوپورہ کے ایک علاقے شرق پور میں پیش آیا۔
احمدی برادری سے تعلق رکھنے والے 65 سالہ خلیل احمد پولیس کی تحویل تھے جن کے خلاف ایک مقامی شخص نے رواں ماہ توہین مذہب کا مقدمہ درج کروایا تھا۔
اطلاعات کے مطابق ایک نوجوان خلیل احمد سے ملاقات کے لیے پولیس اسٹیشن میں داخل ہوا اور اُنھیں گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔ پولیس کے مطابق نوجوان دسویں جماعت کا طالبعلم ہے اور اسے گرفتار کر لیا گیا ہے۔
احمدی برادری کے ایک ترجمان سلیم الدین نے خبر رساں ادارے ’رائیٹرز‘ کو بتایا کہ خلیل احمد اور تین دیگر افراد نے اپنے علاقے میں ایک دکاندار کو ایک پوسٹر ہٹانے کو کہا جس پر اُن کے بقول احمدی برادری سے متعلق نامناسب تحریر موجود تھی۔
سلیم الدین کے بقول اس کے ردعمل میں دکاندار نے خلیل احمد اور تین دیگر افراد کے خلاف توہین مذہب کے الزام پر ایف آئی آر درج کرا دی۔ خلیل احمد چار بچوں کے والد ہیں۔
گزشتہ ہفتے صوبہ پنجاب ضلع جھنگ میں ایک احتجاجی مظاہرے کے دوران مبینہ طور پر استعمال کیے گئے ’غلط کلمات‘ پر 68 وکلا کے خلاف توہین مذہب کا پرچہ درج کیا گیا تھا۔
پاکستان میں اس سے قبل بھی احمدی فرقے سے تعلق رکھنے والوں کو نشانہ بنائے جانے کے واقعات پیش آتے رہے ہیں۔ دو سال قبل لاہور میں دو مختلف واقعات میں احمدیوں کی عبادت کے مراکز پر حملے میں کم ازکم 80 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
پاکستان میں توہین مذہب سے متعلق قوانین کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے سول
سوسائٹی اور انسانی حقوق کی تنظیموں سمیت کئی حلقے ان قوانین میں ترامیم کا مطالبہ کرتے آئے ہیں۔
رواں ہفتے پاکستان کی عدالت عظمٰی کے چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے پشاور کے ایک چرچ پر حملے اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ سے متعلق ایک مقدمے کی سماعت میں کہا کہ ملک کا قانون کسی بھی مذہب کی توہین کی اجازت نہیں دیتا اور توہین مذہب کا قانون ہر مذہب کی تضحیک پر لاگو ہوتا ہے۔