امریکہ میں پاکستان کے سفیر اعزاز احمد چوہدری نے کہا ہے کہ ’’پاکستان خطے کا واحد ملک ہے جس نے دہشت گردی کے خلاف بھرپور کارروائی کی ہے اور کوئی بھی ملک یہ نہیں کہ سکتا کہ اُس نے دہشت گردی اور انتہاپسندی پسندی کے خلاف کچھ نہیں کیا‘‘۔
’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے، اُنہوں نے کہا کہ ’’اگر آپ آج القائدہ کے بارے میں کوئی خبر نہیں سن رہے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان اور امریکہ ایک دوسرے سے تعاون کر رہے تھے۔ القائدہ وہ تنظیم ہے جس نے 11ستمبر کا حملہ کیا۔ لہذا، ہمارا خیال ہے کہ کوئی بھی ملک ہم سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ پاکستان نے اس سلسلے میں کچھ نہیں کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان نے سب سے زیادہ کوششیں کی ہیں۔‘‘
امریکی صدر ٹرمپ نے گزشتہ سال جنوبی ایشیا کے بارے میں نئی حکمت عملی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ملک کے اندر دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے ختم کرنے میں ناکام رہا ہے۔
اس سال کی اُن کی سب سے پہلی ٹویٹ بھی پاکستان کے بارے میں تھی جس میں اُنہوں نے کہا تھا کہ ’’امریکہ نے گزشتہ 15 برس میں احمقانہ طور پر پاکستان کو 33 ارب ڈالر کی امداد دی۔ لیکن پاکستان نے اس کے بدلے ہمیں صرف جھوٹ اور دھوکہ دیا۔ پاکستان نے ہمارے رہنماؤں کو بے وقوف سمجھا۔ پاکستان نے اُن دہشت گردوں کو محفوظ ٹھکانے فراہم کئے جنہیں ہم افغانستان میں تلاش کر رہے ہیں۔ اب ایسا نہیں ہوگا۔‘‘
بے بنیاد الزامات:
پاکستانی سفیر کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کو محفوظ ٹھکانے فراہم کرنے اور افغان طالبان کی قیادت کے پاکستان میں موجود ہونے سے متعلق الزامات ’’بے بنیاد ہیں‘‘۔
اُنہوں نے کہا کہ ’’یہ کہنا خام خیالی ہے کہ کراچی شوریٰ، کوئٹہ شوریٰ یا اس قسم کی کوئی بھی شوریٰ پاکستان میں موجود ہے۔ ہم نے بارہا کہا ہے کہ پاکستان میں اُن کے کوئی محفوظ ٹھکانے نہیں ہیں۔ افغانستان میں امریکی رپورٹوں کے مطابق 44 فیصد اور بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق 70 فیصد علاقوں میں عسکریت پسندوں کا غلبہ ہے۔ ‘‘
تاہم، امریکی سنٹرل کمان کے کمانڈر جنرل جوزف ووٹل نے سینیٹ کی آرمز سروسز کمیٹی کو فروی میں بتایا تھا کہ پاکستان نے اب تک حقانی نیٹ ورک سمیت دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی نہیں کی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ’’پاکستان بھر میں پاکستان مخالف دہشت گردوں کے خلاف کی گئی قومی سطح کی کارروائیاں اس حوالے سے بے اثر رہی ہیں کہ اُس نے افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف کوئی حتمی کارروائی نہیں کی جس کا تقاضا امریکہ کرتا رہا ہے‘‘۔
امریکی اور افغان حکام طویل عرصے سے پاکستان پر الزام عائد کرتے رہے ہیں کہ وہ ملک میں موجود کچھ دہشت گرد عناصر کے خلاف کارروائی کرتا ہے اور کچھ کے خلاف نہیں۔ تاہم، پاکستانی اہلکار ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ سب دہشت گرد عناصر کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کرتے رہے ہیں۔
پاکستانی سفیر نے اس بارے میں ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ، ’’پاکستان حقانی نیٹ ورک اور طالبان کیلئے جگہ تنگ کر رہا ہے۔ اُن کیلئے ہمارا پیغام بہت واضح ہے کہ وہ افغان ہیں۔ اُنہیں تشدد چھوڑ دینا چاہئیے اور افغانستان جا کر ملکی سیاسی دھارے کا حصہ بننا چاہئیے۔‘‘
اُنہوں نے کہا کہ افغانستان میں ناکامی کیلئے پاکستان کو ذمہ دار ٹھہرانا ’’مناسب نہیں ہے‘‘۔
طالبان علاقہ:
عسکریت پسند مبینہ طور پر تربیتی مقاصد کیلئے پاکستان کے قبائلی علاقے کو استعمال کرتے ہیں اور سرحد پار افغانستان جا کر امریکی اور افغان فوجوں پر حملوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ تاہم، اعزاز چوہدری کا کہنا ہے کہ متعدد فوجی آپریشنز کے بعد قبائلی علاقوں سے دہشت گردوں کا صفایا کر دیا گیا ہے۔
سفیر نے کہا کہ ’’تشدد اور دہشت گردی کسی بھی حوالے سے قابل قبول نہیں ہیں۔ اسی لئے ہماری مسلح افواج قبایلی علاقوں میں گئیں خاص طور پر شمالی وزیرستان میں، جہاں ان لوگوں نے اپنے خفیہ مرکز اور محفوظ ٹھکانے بنا رکھے تھے۔ اُنہوں نے دیسی ساخت کے بم، یعنی IED بنانے کی فیکٹریاں اور تربیتی کیمپ قائم کر لئے تھے اور پھر دو تین سال بعد ہم نے تمام علاقے سے اُن کا صفایا کر دیا اور اس کے چپے چپے کو محفوظ بنا دیا۔‘‘
حکومت کے ان دعووں کے برعکس، حالیہ طور پر قبایلی علاقے کے پشتونوں کی تحریک ایک مختلف کہانی پیش کرتی ہے۔ ’پشتوں تحفظ تحریک‘ یا پی ٹی ایم کا کہنا ہے کہ ’’حساس قبایلی علاقے میں امن نام کی کوئی چیز نہیں ہے‘‘۔
تاہم، سفیر اعزاز چوہدری اس الزام کو نظر انداز کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پی ٹی ایم بیرونی ہاتھوں میں کھیل رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’میرے خیال میں یہ لوگ صورت حال کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں، کیونکہ اس سے اُن کا اپنا مفاد وابستہ ہے۔ البتہ، ان لوگوں کے ساتھ حکام کے مذاکرات جاری ہیں اور یہ معاملہ عدالتوں میں بھی جا چکا ہے۔ پاکستان کے اندر پشتون محب وطن پاکستانی ہیں اور اُنہوں نے پاکستانی عوام کیلئے بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔‘‘
پی ٹی ایم کے ارکان کسی بھی غیر ملکی حکومت کے ساتھ رابطوں سے انکار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اُن کے مطالبات آئین کے عین مطابق ہیں۔
حافظ سعید:
حافظ سعید کو مبینہ طور پر 2008 کے ممبئی حملوں میں ہونے والی 160 ہلاکتوں کا ’ماسٹرمائینڈ‘ ہونے کے حوالے سے امریکہ نے دہشت گرد قرار دے رکھا ہے۔ لیکن وہ پاکستان کے شہر لاہور میں آزاد شہری کی طرح زندگی گزار رہا ہے۔ امریکہ پاکستان پر تنقید کرتا ہے کہ ’’اُس نے حافط سعید کے خلاف خاطر خواہ کارروائی نہیں کی‘‘۔
امریکی محکمہٴ خارجہ کی ترجمان ہیدر نیوئٹ نے فروری میں ایک پریس بریفنگ میں کہا تھا کہ ’’پاکستان کو متعدد بار حافظ سعید کے خلاف ناکافی کارروائی کرنے پر تنبیہ کی گئی ہے‘‘۔
اُنہوں نے کہا تھا کہ’’ہم نے کتنی ہی بار بات کی کہ پاکستان نے اُس شخص کو نظر بندی سے آزاد کر دیا ہے جو 2008 میں ممبئی حملوں کا ذمہ دار تھا جن میں امریکیوں سمیت بہت سے لوگ ہلاک ہوگئے تھے۔‘‘
اعزاز چوہدری کہتے ہیں کہ حافظ سعید کا کیس قانونی ہے اور بھارت اس بارے میں مناسب ثبوت فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے۔
اُنہوں نے بتایا کہ ’’ہم نے 2012 میں کئی بار کوشش کی۔ اُس وقت پہلا جوڈیشل کمشن بنا تھا۔ لیکن، وہ استغاثہ کے گواہ پر جرح نہ کر سکے۔ اگلے سال اُنہوں نے دوبارہ ایسا ہی کیا۔ تاہم، مکمل ثبوت فراہم نہیں کیا گیا جس کی بنیاد پر قانونی طور پر سزا دی سکتی۔‘‘
تعلقات کا مستقبل:
حالیہ برسوں میں پاکستان اور امریکہ کے تعلقات خراب ہوتے گئے ہیں۔ حال ہی میں تعلقات میں گراوٹ مزید گہری ہوئی جب امریکہ نے پاکستانی سفارت کاروں پر پاکستانی سفاتخانے سے 40 کلومیٹر سے زیادہ دور جانے کیلئے پانچ روز قبل اجازت لینے کا پابند بنا دیا۔ اس کے جواب میں پاکستان نے بھی امریکی سفارتکاروں کے خلاف ایسی ہی پابندیاں عائد کر دیں۔
ان سے قطع نظر، امریکہ میں پاکستانی سفیر اعزاز چوہدری نے اُمید ظاہر کی کہ دو طرفہ تعلقات بہتر ہو جائیں گے۔ بقول اُن کے، ’’ میں یہ کہہ رہا ہوں کہ یہ مضبوط تعلقات ہیں اور اگرچہ یہ اس وقت برے حالات سے گزر رہے ہیں، مستقبل میں اسی طرح معمول پر آ جائیں گے جیسے یہ پہلے ہوا کرتے تھے‘‘۔