پاکستان میں انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے ایک امام مسجد کو اشتعال انگیز اور فرقہ وارانہ منافرت پر مبنی تقاریر کرنے پر پانچ سال قید کی سزا سنائی ہے۔
لاہور میں ایک سرکاری وکیل شیخ سعید احمد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں تصدیق کہ امام مسجد مولانا ابوبکر کو نفرت انگیز تقاریر پر یہ سزا سنائی گئی۔
اُنھوں نے بتایا کہ مولانا ابوبکر کا تعلق صوبہ پنجاب کے ضلع قصور کے علاقے کوٹ رادھا کشن سے ہے اور اُن کے خلاف رواں سال کے اوائل میں ہی منافرت پر مبنی تقاریر کرنے پر مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
امام مسجد خود پر لگائے الزامات کی نفی کرتے رہے ہیں اور اُن کے وکیل نے انسداد دہشت گردی کی عدالت سے استدعا کی تھی کہ یہ مقدمہ خارج کیا جائے۔
تاہم سرکاری وکلاء کی طرف سے پیش کیے گئے ٹھوس شواہد کی بنا پر عدالت نے یہ سزا سنائی۔
انسداد دہشت گردی کی عدالت کے اس فیصلے کے خلاف مولانا ابوبکر کو اپیل کا حق حاصل ہے۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے مذہبی اُمور کے رکن وحید عالم خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اب ملک فرقہ وارانہ بنیادوں پر اشتعال انگیز تقاریر کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
’’علمائے اکرام کو بھی اب یہ سمجھنا چاہیئے کہ اس ملک میں فرقہ وارانہ اور مسلک کی بنیاد پر جو باتیں کی جاتی ہیں وہ ملک کے لیے زہر ہے، ان باتوں سے ہٹ کر وہ بات کرنی چاہیئے جس کا اسلام میں صحیح منعوں میں درس دیا جاتا ہے۔‘‘
پاکستان میں گزشتہ سال 16 دسمبر کو پشاور کے ایک اسکول پر طالبان دہشت گردوں کے مہلک حملے کے بعد ملک میں انسداد دہشت گردی کا ایک قومی لائحہ عمل وضع کیا گیا تھا۔
جس کے تحت پاکستان بھر میں دہشت گردوں اور اُن کے معاونین کے خلاف کارروائی کے علاوہ نفرت انگیز تقاریر کرنے اور منافرت پھیلانے پر مبنی مواد کی اشاعت کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
حال میں جاری ہونے والے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر میں نفرت انگیز تقاریر کرنے پر لگ بھگ 900 مقدمات درج کیے گئے جن میں سے بیشتر کا اندراج صوبہ پنجاب میں کیا گیا۔
سرکاری بیان کے مطابق نو سو سے زائد افراد کو منافرت پھیلانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا جب کہ 70 ایسی دکانوں کو سیل کر دیا گیا جہاں سے ایسا مواد ملا جو اشتعال انگیزی پر مبنی تھا۔