رحمن ملک نے کہا کہ اگر بھارتی گواہوں سے جرح نہ کی گئی تو پھر اس کا فائدہ ملزمان کو پہنچ سکتا ہے۔
پاکستان نے ایک بار پھر بھارت سے درخواست کی کہ وہ ممبئی حملہ کیس کے تحقیقاتی کمیشن کو اپنے ہاں موجود چار گواہوں کے بیانات قلم بند کرنے اور ان سے جرح کی اجازت دے۔
ہفتہ کو اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک نے کہا کہ رواں ماہ ممبئی حملوں کے ملزمان کے خلاف مقدمے کی سماعت کرنے والی پاکستانی عدالت نے تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ کو صرف اس بنا پر مسترد کردیا تھا کیونکہ یہ متعلقہ بھارتی گواہوں سے جرح کیے بغیر مرتب کی گئی تھی جو کہ پاکستانی قوانین کے مطابق بہت ضروری ہے۔
انھوں نے بتایا کہ وزارت خارجہ کے توسط سے لکھے گئے ایک خط کے ذریعے متعلقہ بھارتی عہدیداروں سے درخواست کی گئی ہے کہ پاکستان کے تحقیقاتی کمیشن کو تین چار روز کے لیے بھارت آنے اور ان چار گواہوں سے جرح کرنے کی اجازت دی جائے۔
’’کیونکہ اگر ان چار گواہوں کے بیانات نہیں ہوتے جرح نہیں ہوتی تو ان چاروں کا جو لنک بنتا ہے مقدمے سے تو وہ فائدہ جائے گا ملزمان کو۔ لہذا میری درخواست بھی ہوگی اور میں ایک خط علیحدہ سے بھی لکھ رہا ہوں چدمبرم (بھارتی وزیرداخلہ) صاحب کو کہ اس میں مداخلت کریں۔باقی سارا کام مکمل ہوگیا ہے یہ صرف چار گواہان ہیں ان سے سادہ سے سوالات ہیں۔‘‘
رحمن ملک نے اس امید کا اظہار بھی کیا کہ دونوں ملکوں کے درمیان دیگر شعبوں میں ہونے والی پیش رفت کی طرح اس معاملے پر بھی انھیں مثبت جواب موصول ہوگا۔
نومبر 2008ء میں بھارت کے اقتصادی مرکز پر تین روز تک جاری رہنے والی دہشت گردانہ کارروائی میں غیر ملکیوں سمیت 166 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ بھارتی حکام نے اجمل قصاب نامی دہشت گرد کو اس میں واقعے میں زندہ گرفتار کیا تھا جب کہ دیگر شدت پسند ہلاک ہوگئے تھے۔
بھارت نے اس دہشت گردانہ کارروائی کا الزام پاکستان میں مقیم کالعدم تنظیم لشکر طیبہ پر عائد کیا تھا۔
پاکستان میں جن سات ملزمان کے خلاف اس مقدمے کی سماعت کی جارہی ہے ان میں اس تنظیم کے ایک مبینہ کمانڈر ذکی الرحمن لکھوی بھی شامل ہے جس پر ممبئی حملوں کی منصوبہ بندی کا الزام ہے۔
رواں سال مارچ میں استغاثہ اور صفائی کے وکلا پر مشتمل پاکستانی کمیشن نے بھارت کا دورہ کیا تھا لیکن انھیں اہم گواہوں سے جرح کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔
کمیشن نے ایک جج، ایک اعلیٰ پولیس افسر اور دو ڈاکٹروں کے انٹریو کیے تھے جنہوں نے ممبئی حملوں میں ملوث دہشت گردوں کی لاشوں کا پوسٹ مارٹم کیا تھا۔
ہفتہ کو اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک نے کہا کہ رواں ماہ ممبئی حملوں کے ملزمان کے خلاف مقدمے کی سماعت کرنے والی پاکستانی عدالت نے تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ کو صرف اس بنا پر مسترد کردیا تھا کیونکہ یہ متعلقہ بھارتی گواہوں سے جرح کیے بغیر مرتب کی گئی تھی جو کہ پاکستانی قوانین کے مطابق بہت ضروری ہے۔
انھوں نے بتایا کہ وزارت خارجہ کے توسط سے لکھے گئے ایک خط کے ذریعے متعلقہ بھارتی عہدیداروں سے درخواست کی گئی ہے کہ پاکستان کے تحقیقاتی کمیشن کو تین چار روز کے لیے بھارت آنے اور ان چار گواہوں سے جرح کرنے کی اجازت دی جائے۔
’’کیونکہ اگر ان چار گواہوں کے بیانات نہیں ہوتے جرح نہیں ہوتی تو ان چاروں کا جو لنک بنتا ہے مقدمے سے تو وہ فائدہ جائے گا ملزمان کو۔ لہذا میری درخواست بھی ہوگی اور میں ایک خط علیحدہ سے بھی لکھ رہا ہوں چدمبرم (بھارتی وزیرداخلہ) صاحب کو کہ اس میں مداخلت کریں۔باقی سارا کام مکمل ہوگیا ہے یہ صرف چار گواہان ہیں ان سے سادہ سے سوالات ہیں۔‘‘
رحمن ملک نے اس امید کا اظہار بھی کیا کہ دونوں ملکوں کے درمیان دیگر شعبوں میں ہونے والی پیش رفت کی طرح اس معاملے پر بھی انھیں مثبت جواب موصول ہوگا۔
نومبر 2008ء میں بھارت کے اقتصادی مرکز پر تین روز تک جاری رہنے والی دہشت گردانہ کارروائی میں غیر ملکیوں سمیت 166 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ بھارتی حکام نے اجمل قصاب نامی دہشت گرد کو اس میں واقعے میں زندہ گرفتار کیا تھا جب کہ دیگر شدت پسند ہلاک ہوگئے تھے۔
بھارت نے اس دہشت گردانہ کارروائی کا الزام پاکستان میں مقیم کالعدم تنظیم لشکر طیبہ پر عائد کیا تھا۔
پاکستان میں جن سات ملزمان کے خلاف اس مقدمے کی سماعت کی جارہی ہے ان میں اس تنظیم کے ایک مبینہ کمانڈر ذکی الرحمن لکھوی بھی شامل ہے جس پر ممبئی حملوں کی منصوبہ بندی کا الزام ہے۔
رواں سال مارچ میں استغاثہ اور صفائی کے وکلا پر مشتمل پاکستانی کمیشن نے بھارت کا دورہ کیا تھا لیکن انھیں اہم گواہوں سے جرح کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔
کمیشن نے ایک جج، ایک اعلیٰ پولیس افسر اور دو ڈاکٹروں کے انٹریو کیے تھے جنہوں نے ممبئی حملوں میں ملوث دہشت گردوں کی لاشوں کا پوسٹ مارٹم کیا تھا۔