پاکستان نے کہا ہے کہ پانی کی تقسیم سے متعلق طے پانے والے سندھ طاس معاہدے کو بھارت یکطرفہ طور پر ختم یا تبدیل نہیں کر سکتا ہے۔
پاکستان کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے منگل کو قومی اسمبلی میں اس حوالے سے ایک پالیسی بیان میں کہا کہ سندھ طاس آبی معاہدے کو ختم کرنا پاکستان کے خلاف جنگی اقدام تصور کیا جائے گا اور اُن کے بقول اگر ایسا کیا گیا تو پاکستان عالمی عدالت انصاف سے رجوع کرے گا۔
واضح رہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی کے تناظر میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے پیر کو ایک اجلاس میں سندھ طاس معاہدے سے متعلق اُمور پر غور کیا تھا، تاہم اس بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔
بھارتی ذرائع ابلاغ نے وزیراعظم نریندر مودی کے حوالے سے کہا کہ ’پانی اور خون ساتھ ساتھ نہیں بہہ سکتے‘۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کی تقسیم سے متعلق سندھ طاس معاہدہ 1960ء میں طے پایا تھا۔ معاہدے کے تحت بھارت کو پنجاب میں بہنے والے تین مشرقی دریاؤں بیاس، راوی اور ستلج کا زیادہ پانی ملے گا یعنی اُس کا ان دریاؤں پر کنٹرول زیادہ ہو گا۔
جب کہ جموں و کشمیر سے نکلنے والے مغربی دریاؤں چناب , جہلم اور سندھ کا زیادہ پانی پاکستان کو استعمال کرنے کی اجازت ہو گی۔
سرتاج عزیز نے قومی اسمبلی میں کہا کہ سندھ طاس معاہدے پر عمل درآمد دونوں ممالک کی ذمہ داری ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان آبی معاہدے پر عمل درآمد سے متعلق اختلافات کے حل کے لیے مصالحت کا طریقہ درج ہے۔
سرتاج عزیز نے کہا کہ بھارت یکطرفہ طور سندھ طاس آبی معاہدہ ختم نہیں کر سکتا۔ اُن کے بقول اس سے نا صرف بین الاقوامی سطح پر بھارت کی ساکھ متاثر ہو گی بلکہ اُن کے بقول اس سے جنگ کا بھی خدشہ ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اُنھوں نے کہا کہ اگر بھارت پاکستان کی جانب دریاؤں کے پانی کے بہاؤ کو روکنے کی کوشش کرے گا تو یہ نا صرف سندھ طاس آبی معاہدے کی خلاف ورزی ہو گی بلکہ خطے کے دیگر ممالک بھی ایسا کر سکتے ہیں مثال کے طور پر چین برہم پترا دریا کو روک سکتا ہے۔
پاکستان کے مشیر خارجہ نے کہا کہ سندھ طاس معاہدہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والی 1965 اور 1971 کی جنگوں میں بھی برقرار رہا بلکہ کارگل اور سیاچن کی لڑائی کے دوران بھی اسے معطل نہیں کیا گیا۔
سرتاج عزیز نے کہا کہ پاکستان اس بارے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے رکن ممالک اور عالمی برداری کو بھی آگاہ کرے گا کہ اس طرح کا اقدام امن کے لیے کتنا خطرناک ہو سکتا ہے۔
اُدھر بین الاقوامی قوانین کے ماہر قانون دان احمر بلال صوفی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اس طرح کے معاہدے کو کوئی ایک فریق یکطرفہ طور پر ختم نہیں کر سکتا۔
’’معاہدے کا متن تو یہ کہتا ہے کہ اگر اس معاہدے کو ختم کرنا ہے تو دونوں ملکوں کو ایک اور معاہدہ کر کے ہی اسے ختم کرنا ہو گا۔‘‘
واضح رہے کہ بھارتی کشمیر میں رواں ماہ ایک فوجی کیمپ پر عسکریت پسندوں کے حملے میں 18 فوجی مارے گئے تھے، جس کے بعد پاکستان اور بھارت کے تعلقات بہت کشیدہ ہو گئے۔
اسی کشیدگی سے متعلق پاکستانی فوج کے ترجمان لفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے منگل کو صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ مسلح افواج ملک کی مشرقی سرحدوں کی صورت حال پر نظر رکھے ہوئے ہے۔
’’مشرقی جو سرحدیں ہیں ہم اُس پر پوری نظر رکھے ہوئے ہیں اور مکمل طور پر تیار ہیں۔‘‘
اُدھر بھارت نے نئی دہلی میں تعینات پاکستان کے ہائی کمشنر عبدالباسط کو وزارت خارجہ طلب کر کے بھارتی کشمیر میں حملے سے متعلق شواہد فراہم کیے۔
پاکستان متعدد بار یہ کہہ چکا ہے کہ کشمیر میں حملے سے اُس کا کوئی تعلق نہیں ہے، جب کہ پاکستانی عہدیداروں کی طرف سے اس حملے کی بین الاقوامی تحقیقات کا بھی مطالبہ کیا گیا۔