صوبہ پختون خواہ کے وزیر اطلاعات میاں افتخار حسین نے وائس آف امریکہ سے اپنے انٹرویو میں کہاہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کا مسئلہ اس وقت تک حل نہیں ہوگاجب تک پاکستان، افغانستان اور امریکہ اپنی دوہری پالیساں ترک نہیں کردیتے۔
انہوں نے کہا کہ اگریہ تینوں ملک دہشت گردوں کی تفریق میں نہ پڑیں اور کسی کو اچھا اور کسی دوسرے کو خراب کے خانوں میں نہ بانٹیں اور دہشت گرد کو صرف دہشت گرد ہی سمجھیں توصرف اسی صورت دہشت گردی پرقابو پایا جاسکتا ہے۔ ان کا کہناتھا کہ ایک دوسرے پر عدم اعتماد کی قیمت پاکستان کو ادا کرنی پڑے گی۔
ان کا یہ بھی کہناتھا کہ بدقسمتی سے پاکستان بین الاقوامی دہشت گروں کا ہدف بنا ہوا ہے اوریہاں پر ان کی موجودگی سے پاکستانی غیر محفوظ ہوچکے ہیں۔
میاں افتخارحسین کا کہناتھا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ تینوں ممالک یکساں پالیسی اختیار کریں اور ایک دوسرے کوشک کی نگاہ سے دیکھنے کی بجائے اعتماد کی فضا پیدا کریں تودہشت گردی کا جلد خاتمہ ممکن ہوہے۔ اگرایسا نہ ہواتو معصوم پاکستانیوں کا خون بہتا رہے گا۔
صوبے میں سیکیورٹی انتظامات کے بارے میں وزیر اطلاعات کا کہناتھا کہ حکومت نے لوگوں کے جان و مال کے تحفظ کے لیے ہر ممکن حفاظتی انتظامات کر رکھے ہیں ، لیکن اگر فوج کا ہیڈکوارٹرز، بحریہ کا کراچی میں واقع بیس ، اور امریکہ کے ٹوئن ٹاورز دہشت گردی کی زد میں آسکتے ہیں تو ہمیں بھی ایسے واقعات کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ تاہم حکومتی اداروں نے دہشت گردی کے کئی منصوبوں کا قبل از وقت پتا چلا کرانہیں وقوع پذیر ہونے سے روک چکے ہیں۔
ان کا کہناتھا کہ ہم اپنے محدود وسائل میں رہتے ہوئے عوام کو ہر ممکن سیکیورٹی فراہم کرتے رہیں گے۔