پاکستان میں آٹھ فروری کو عام انتخابات کا انعقاد ہو رہا ہے۔ اور یہ انتخابات ایسے وقت میں ہوں گے جب کہ ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت پی ٹی آئی سے اس کا انتخابی نشان واپس لے لیا گیا ہے۔ اس کے بانی اور سربراہ کو ایک مقدمے میں ایک عدالت نے 10 برس، اور دوسرے مقدمے میں 14 سال قید کی سزا سنائی ہے۔
اس وقت پی ٹی آئی کے امیدوار آزاد امیدواروں کی حیثیت سے انتخاب لڑ رہے ہیں۔ ملک میں آٹھ فروری کو طے شدہ انتخابات کتنے غیر متنازعہ ہوں گے، ان کو اندرون ملک اور بیرون ملک کتنی قبولیت حاصل ہو گی، پی ٹی آئی کے آزاد امیدوار جیتنے کی صورت میں کیا واقعی پارٹی اور اس کی قیادت کے ساتھ وفاداری نبھا سکیں گے اور کیا منتخب ہو کر آنے والی آئندہ حکومت ملک کو اس کے سیاسی، خاص طور پر معاشی بحران سے نکال سکے گی؟ یہ وہ مختلف سوالات ہیں، جن کے جوابات آسان نہیں ہیں۔ اور تجزیہ کار ان سوالوں کے جواب تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
جہانگیر خٹک نیویارک میں مقیم ایک سینئر تجزیہ کار ہیں۔ جو نیو یارک یونیورسٹی میں سینٹر برائے کمیونٹی میڈیا کے ڈائریکٹر کمیونیکیشنز ہیں۔ وائس آف امریکہ سے اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جن حالات میں یہ الیکش ہوں گے تو شاید یہ پاکستان کی تاریخ کے متنازعہ ترین انتخابات ہوں گے۔ اور اگر یہ انتخابات ہوتے ہیں تو جیتنے والے تو بہت سے ہوں گے لیکن ہار چند اداروں کی ہو گی جن میں اسٹبلشمنٹ بھی شامل ہو گی۔ کیونکہ اس وقت پاکستان اور بیرون ملک لوگوں اور تجزیہ کاروں کا تاثر یہ ہے، خواہ یہ تاثر پوری طرح درست نہ بھی ہو کہ اس وقت جو کچھ ملک میں ہو رہا ہے اس کے نتیجے میں انتخابات کے متنازعہ ہونے کا بہت زیادہ امکان ہے۔ اس میں اسٹبلشمنٹ کا بہت حصہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک متنازعہ سایسی عمل کے ذریعے وجود میں آنے والی حکومت بننے کے بعد ملک میں سیاسی افراتفری اور تفریق بڑھنے کا خطرہ ہے۔ اور اس صورت میں اس وقت ملک کو جو متعدد مسائل درپیش ہیں، خاص طور سے معاشی مسائل، ان کے حل کے امکانات اس لیے نظر نہیں آتے کہ ان مسائل کے حل کے لیے ملک میں امن اور سیاسی استحکام کی ضرورت ہو گی۔
Your browser doesn’t support HTML5
جہانگیر خٹک کا کہنا تھا کہ اگر انتخابات کے نتیجے میں امن آ بھی جائے تب بھی ملک کے اندر اور اس کے گرد کے حالات پر نظر ڈالی جائے تو سیاسی استحکام کی کوئی صورت نظر نہیں آتی، جس کا دوسرا مطلب یہ ہوا کہ معاشی حالات درست نہیں ہو سکیں گے اور ملک کی صحیح سمت کا تعین انتخابات ہونے اور حکومت بننے کے باوجود نہیں ہو سکے گا۔
اس سوال کے جواب میں کہ کیا اتنی بڑی تعداد میں آزاد امیدواروں کے میدان میں ہونے اور ان کے منتخب ہونے کی صورت میں ہارس ٹریڈنگ بہت زیادہ نہیں بڑھ جائے گی؟
جہانگیر خٹک نے کہا کہ کہ بلا شبہ یہ ہو سکتا ہے اور ممکنہ طور پر دو منظرنامے بنتے ہیں اوّل تو یہ کہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار بڑی تعداد میں کامیاب ہوتے ہیں تو وہ کسی بھی دباؤ یا ترغیب کے نتیجے میں دوسری پارٹیوں میں چلے جائیں اور پی ٹی آئی وہ مقاصد حاصل نہ کر سکے جن کے تحت اس نے اتنی بڑی تعداد میں آزاد امیدوار میدان میں اتارے تھے۔ اس کے نتیجے میں پاکستان میں سیاسی تقسیم اور گہری ہو گی اور سیاسی عدم استحکام بڑھے گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
جہانگیر خٹک کے مطابق دوسرا منظر نامہ یہ ہو سکتا ہے کہ اگر پی ٹی آئی کی قیادت کا اپنے آزاد منتخب ہونے والوں پر کنٹرول رہے، اور وہ بڑی تعداد میں منتخب بھی ہوتے ہیں تو وہی منتخب پارلمنٹ کو غیر فعال بھی کر سکتے ہیں۔ یعنی یہ کہ پی ٹی آئی کی قیادت یہ فیصلہ کرے کہ اس کے ارکان جیسے پہلے ایک بار اسمبلی کی اپنی نشستوں سے استعفے دے چکے ہیں ایک بار پھر اسی عمل کو دہرائیں اور استعفے دے دیں تو پارلمنٹ تو پھر بے معنی ہو کر رہ جائے گی اور عدم استحکام کی صورت حال بہتر نہ ہونے پائے گی۔ ان حالات میں شفاف اور غیر جانبداری سے کرائے گئے انتخابات ہی ملکی مسائل کو حل کر سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک بہت مشکل خطے میں واقع ہے جسے پڑوس میں مسائل کا سامنا ہے۔ اور اس کی فوج ہی اس کی بقا کی ضامن اور اس کی انشورنس پالیسی ہے جسے متنازعہ نہیں ہونا چاہئیے۔
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہ بیرونی ملکوں میں پاکستان کی اس وقت کی صورت حال کو کس طرح دیکھا جا رہا ہے، جہانگیر خٹک نے کہا کہ اس کے دو لیول ہیں۔
ایک تو دوسرے ملکوں کی حکومتیں ہیں اس سطح پر ملک اپنے جیو اسٹریٹیجک مفادات کے تحت دیکھتے ہیں۔ وہ یقینأّ اندرونی طور پریشان بھی ہوں گے کیوںکہ پاکستان ایک جوہری ملک ہے۔ اور ایسے ملک میں سیاسی افراتفری اور عدم استحکام پوری دنیا کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
جہانگیر خٹک نے کہا کہ دوسری سطح پر آزاد تھنک ٹینک، آزاد میڈیا تنظیمیں اور غیر سرکاری تجزیہ کار وغیرہ ہیں ۔ان کی طرف سے اس وقت جو کچھ میڈیا میں آ رہا ہے وہ یہ ہی ہے کہ یہ کوئی اچھی صورت حال نہیں ہے۔ وہ بھی تشویش کے اظہار کے ساتھ اس بات کی وکالت کرتے ہیں کہ انتخابات شفاف اور غیر متنازعہ ہو نے چاہئیں۔
پروفیسر فیضان حق
بفلو یونیورسٹی سے وابست پروفیسر فیضان حق پاکستان کے حالات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں جو انتخابات ہونے جا رہے ہیں وہ شاید ویسے نہ ہوں جیسے جمہوریتوں میں ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا پاکستان سے باہر جو لوگ وہاں کے حالات پر نظر رکھتے ہیں ان میں سے بیشتر سمجھتے ہیں کہ اس وقت پاکستان جس سیاسی اور معاشی صورت حال سے دو چار ہے۔ اس میں اگر یک طرفہ انتخابات کرائے گئے تو یہ عدم استحکام میں اضافے کا باعث بنیں گے۔
پاکستان میں لوگوں کے کیا تاثرات ہیں، اس بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئیے پروفیسر فیضان نے کہا کہ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کس سے بات کر رہے ہیں۔ اگر آپ پی ٹی آئی کے لوگوں سے بات کریں تو وہ شکایت کرتے نظر آئیں گے کہ ان کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے، ان کے لیڈر کو قید کر دیا گیا ہے، ان کی پارٹی کا نشان چھین لیا گیا۔ لیکن جب مسلم لیگ نون یا دوسری جماعتوں کے لوگوں سے بات کی جائے تو وہ کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ ان کے ساتھ دو ہزار اٹھارہ میں ہو چکا ہے اور بقول ان کے یہ مکافات عمل ہے۔ فیضان حق نے کہا کہ بہرحال یہ ان کا موقف ہے لیکن ملک میں اضطراب پایا جاتا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
فیضان حق کا کہنا تھا کہ صاحبان اختیار کے اس خیال سے وہ متفق نہیں ہیں کہ انتخابات کے بعد سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ ہاں کچھ مقاصد ضرور حاصل ہو جائیں گے۔
پی ٹی آئی کے مستقبل کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ سیاسی جماعتیں یا سیاسی تحریکیں ختم نہیں ہوتیں۔
انہوں مثال دیتے ہوئے کہا ماضی میں پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور مسلم لیگ وغیرہ کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن وہ ختم نہ ہو سکیں۔ اگر ان پر پابندی لگادی بھی دی جائے تو وہ دوسرے ناموں سے آ جاتی ہیں۔