پاکستان میں حزب مخالف کی جماعت تحریک انصاف اور حکومت کے عہدیداروں کی طرف سے ایک دوسرے کے خلاف بیانات کا سلسلہ جاری ہے۔
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے دو نومبر کو اسلام آباد بند کرنے کی کال دے رکھی ہے اور وہ اپنی جماعت کے کارکنوں کو متحرک کرنے میں مصروف ہیں۔
پیر کو مالاکنڈ میں اُنھوں نے ایک جلسے سے خطاب میں کہا کہ اسلام آباد میں سفارت کاروں کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
’’ہسپتالوں کے راستے صاف رکھیں گے، ایمبولینس کے لیے جگہ دیں گے، ضرورت کی چیزیں خریدنے کے لیے لوگوں کو وقت دیں گے جگہ گے۔۔۔۔ سفارت کاروں کو کسی قسم کی فکر کی ضرورت نہیں، لیکن نواز شریف حکومت نہیں کر سکو گے۔‘‘
اُدھر وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے کہا کہ اب جب کہ پاناما پیپرز کا معاملہ عدالت عظمیٰ میں ہے تو اُن کے بقول احتجاج کا کوئی جواز نہیں۔
’’پاکستان میں جو بھی قوانین موجود ہے، اُن کے ذریعے اسلام آباد میں سرکاری کے کاموں میں مداخلت کرنے والوں کو روکا جائے گا۔‘‘
عمران خان نے پیر کو دعویٰ کیا کہ دو نومبر کو اسلام آبا میں احتجاج میں 10 لاکھ افراد شریک ہوں گے۔
اُدھر اطلاعات کے مطابق اسلام آباد کی لال مسجد سے وابستہ افراد بھی اس دھرنے میں تحریک انصاف کا ساتھ دے سکتے ہیں لیکن تاحال اس بارے میں باضابطہ طور پر مسجد انتظامیہ کی طرف کوئی اعلان نہیں کیا گیا ہے۔
رواں سال اپریل میں پاناما لیکس میں وزیراعظم نواز شریف کے تین بچوں، حسین، حسن اور مریم نواز کا نام سامنے آنے کے بعد حزب مخالف کی جماعتوں کی جانب سے حکومت کو ہدف تنقید بنایا گیا اور خاص طور تحریک انصاف نے اس معاملے پر ملک گیر احتجاج شروع کیا۔
عمران خان کا کہنا ہے کہ اب تک وزیراعظم نے خود کو احتساب کے لیے پیش نہیں کیا اس لیے اب اُن کی جماعت اسلام آباد میں دھرنا دے گی۔
حکومت میں شامل عہدیداروں کا موقف ہے کہ اب جب کہ سپریم کورٹ اس معاملے کی سماعت کر رہی ہے اور وزیراعظم بھی عدالتی کارروائی کا خیر مقدم کر چکے ہیں تو تحریک انصاف کو اپنا احتجاج ترک کر دینا چاہیئے۔