برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے بدھ کے روز بھار ت کے دورے کے دوران اپنے ایک بیان میں الزام لگایا تھا کہ پاکستان دہشت گردی برآمد کررہا ہے۔ ان کے اس الزام کی پاکستانی وزارت خارجہ نے فوری طور پر تردید کرتے ہوئے برطانوی رہنما کے بیان کو افسوس ناک قرار دیا۔
تاہم دوروز گزرنے کے بعد بھی پاکستان میں سرکاری عہدے داروں اور اراکین پارلیمان کے طرف سے ڈیوڈ کیمرون کے بیان کی مذمت کاسلسلہ جاری ہے۔
جمعرات کی شب قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا تھا کہ پاکستان سفارتی ذرائع سے اس معاملے کو اٹھائے گا کیونکہ ایسے بیانات دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتے ہیں۔
سینٹ میں اراکین پارلیمان کا ماننا ہے کہ ڈیوڈ کیمرون کے بیان سے دوطرفہ تعلقات متاثر ہونے کا خدشہ نہیں اور ان کے بقول ایسا لگتا ہے کہ برطانوی وزیراعظم نے ناتجربہ کاری کی وجہ سے پاکستان پر یہ الزام لگایا ہے ورنہ وہ بھارت میں جاکر ایسا بیان نا دیتے۔
پارلیمان کی کمیٹی برائے قومی سلامتی کے سربراہ سینیٹر رضا ربانی نے وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں برطانیہ کے وزیراعظم کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس بیان پر برطانیہ میں ردعمل سامنے آیا ہے اور لیبر پارٹی نے اس کی مذمت بھی کی ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ پاکستانی حکومت بھی مختلف ”فورمز“ پر اس معاملے کو اُٹھائے گی۔
رضا ربانی کے بقول اس بیان سے دونوں ممالک کے درمیان کچھ کشیدگی ضرور آئی ہے لیکن برطانیہ کے ساتھ پاکستان کے بالعموم تعلقات پر اس بیان کے بعد کچھ زیادہ اثر نہیں پڑا۔
پاکستانی دفتر خارجہ نے بھی اس تاثر کو رد کیا ہے کہ وزیراعظم کیمرون کے بیان سے دوطرفہ تعلقات متاثر ہوئے ہیں اور نہ ہی اس کی وجہ سے آئندہ ہفتے صدر آصف زرداری کے دورہ برطانیہ پر کوئی منفی اثر پڑے گا۔