افغانستان اور پاکستان کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے مارک گراسمین خطّے کے اپنے حالیہ دورے میں پاکستان بھی جانا چاہتے تھے لیکن امریکی دفتر خارجہ کے مطابق پاکستان کی طرف سے انہیں یہ کہہ کر روک دیا گیا کہ جب تک پاکستان امریکہ سے تعلقات پر نظر ثانی کا عمل مکمل نہیں کرلیتا، یہ دورہ مناسب نہیں۔
دفتر خارجہ کے نائب ترجمان مارک ٹونر کی طرف سے اس خبر کی بھی تصدیق کی گئی کہ اس ماہ امریکی اور پاکستانی وزراء خارجہ نے فون پر بات کی ہے۔ البتہ انھوں نے بات چیت کے مندرجات کی تفصیل نہیں بتائی۔
ایک امریکی اخبار’دی واشنگٹن پوسٹ‘ کے مطابق اس فون کال میں وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے کہا تھا کہ امریکہ کو دنیا میں کہیں بھی کسی ایسے شخص پر حملہ کرنے کا اختیار ہے جو اس کی قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہو۔ جبکہ جواب میں پاکستانی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان اپنی حدود کی پامالی برداشت نہیں کرے گا اور ایسا کوئی بھی جہاز جو اجازت کے بغیر پاکستانی فضائی حدود میں داخل ہو، گرایا جا سکتا ہے۔
مسٹر ٹونر کے مطابق پاکستان کے ساتھ تعلقات میں حالیہ کشیدگیوں اور چیلنجز کے باوجود امریکہ افغانستان میں مصالحت کےعمل میں پاکستان کے کردار کو اہم سمجھتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکہ اور پاکستان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ اپنے تفرقات کو ختم کرکے آگے بڑھیں۔ ’’افغانوں کی سربراہی میں ہونے والے اس مصالحتی عمل کو امریکہ پاکستان کو ایک انتہائی اہم ساتھی سمجھتا ہے۔‘‘
ترجمان ٹونر کے مطابق امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے پاکستان کی واشنگٹن میں نامزد سفیر شیری رحمان سے ملاقات کے دوران بھی اس سلسلے میں بات کی تھی۔
پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں گزشتہ سال نومبر سے شروع ہونے والی کشیدگی کی وجہ سے پاکستان نے جرمنی کے شہر بون میں افغانستان سے متعلق ایک کانفرنس کا بائیکاٹ کر دیا تھا۔ جبکہ امریکہ سے تعلقات پر نظر ثانی کے لیے سفارشات پارلیمان کے سامنے پیش کرنے کے لیے تیار ہیں۔