امریکہ کی پاکستان کو 35 کروڑ 20 لاکھ ڈالر ادائیگی کی منظوری

کولیشن اسپورٹ فنڈ یا اتحادی اعانتی فنڈ کے تحت امریکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ پر پاکستان کے اخراجات کی ادائیگی کرتا ہے اور یہ رقم بھی اس کا حصہ ہے۔
امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ پر ہونے والے اخراجات کی مدد میں ’اتحادی اعانتی فنڈ‘ کے تحت پاکستان کو 35 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کی رقم ادا کرنے کی منظوری دے دی ہے۔

ایک سرکاری بیان کے مطابق پاکستان میں امریکہ کے سفیر رچرڈ اولسن نے وفاقی وزیر خرانہ اسحاق ڈار سے ملاقات کر کے اُنھیں اس بارے میں آگاہ کیا اور بتایا کہ توقع ہے کہ یہ رقم فروری کے پہلے ہفتے میں ادا کر دی جائے گی۔

کولیشن اسپورٹ فنڈ یا اتحادی اعانتی فنڈ کے تحت امریکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ پر پاکستان کے اخراجات کی ادائیگی کرتا ہے۔

سفیر رچرڈ اولسن نے بتایا کہ امریکی وزیر دفاع نے پاکستان کو 35 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کی ادائیگی کے بل پر دستخط کر دیئے ہیں۔

بیان میں کہا گیا کہ دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی شعبے میں تعاون کے لیے ورکنگ گروپ کا اجلاس رواں سال اپریل میں واشنگٹن میں متوقع ہے۔

اسحاق ڈار اور رچرڈ اولسن کے درمیان ملاقات میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان طویل المدت شراکت داری کے اسٹریٹیجک ڈائیلاگ کے آئندہ ہفتے ہونے والے اجلاس سے متعلق اُمور پر بھی بات چیت کی گئی۔

دونوں ملکوں کے درمیان اسٹریٹیجک مذاکرات 27 جنوری کو واشنگٹن میں ہوں گے جن میں پاکستانی وفد کی قیادت وزیراعظم نواز شریف کے مشیر برائے اُمور خارجہ و قومی سلامتی سرتاج عزیز کریں گے جب کہ امریکی وفد کی قیادت وزیر خارجہ جان کیری کریں گے۔

ان مذاکرات سے کچھ دن قبل ہی امریکہ میں کانگریس سے منظور ہونے والے بجٹ قانون میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کے لیے تین کروڑ تیس لاکھ ڈالر امداد کو امریکی انتظامیہ اُس وقت تک روک کر رکھے جب تک ڈاکٹر شکیل آفریدی کو رہا نہیں کر دیا جاتا۔

پاکستان نے اس فیصلے پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا تھا کہ دوطرفہ تعاون کو ڈاکٹر آفریدی کے معاملے سے جوڑنا مناسب نہیں۔

جب کہ پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے رواں ہفتے ہی کہا کہ امریکہ کی درخواست پر زیرحراست ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی کا کوئی امکان نہیں ہے۔

پاکستان کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر آفریدی کا معاملہ عدالت میں ہے اور اگر عدلیہ اُنھیں رہا کرتی ہے تو یہ الگ چیز ہے۔

ڈاکٹر شکیل آفریدی کو دو مئی 2011 میں ایبٹ آباد میں امریکی فورسز کے ایک خفیہ آپریشن میں القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔ ڈاکٹر آفریدی پر الزام تھا کہ اُنھوں نے اسامہ بن لادن کی شناخت اور ایبٹ آباد میں موجودگی کی تصدیق کے لیے امریکی انٹیلی جنس ادارے سی آئی اے کی مدد کی تھی۔

قبائلی عدالتی نظام کے تحت خیبر ایجنسی کے اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ کی عدالت نے 2012ء میں شکیل آفریدی کو مقامی شدت پسند تنظیم سے راوبط اور اُنھیں مالی معاونت فراہم کرنے پر 33 سال قید کی سزا سنائی تھی۔ ڈاکٹر آفریدی ان دنوں پشاور جیل میں قید ہیں۔

پاکستانی دفتر خارجہ کے مطابق واشنگٹن میں ہونے والے اسٹریٹیجک مذاکرات کے موقع پر بھی تین کروڑ تیس لاکھ ڈالر امداد کی فراہمی کا معاملہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی سے جوڑنے پر بھی امریکی حکام سے بات چیت ہو گی۔

مذاکرات میں دونوں ملکوں کے درمیان مختلف شعبوں میں تعاون کے لیے بنائے گئے پانچ ورکنگ گروپوں کے اجلاسوں میں ہونے والی پیش رفت کا جائزہ اور مستقبل کا لائحہ عمل وضع کیا جائے گا۔


گزشتہ سال اگست میں امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے دورہ پاکستان کے موقع پر اسٹریٹیجک مذاکرات بحال کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔