امریکی انتظامیہ نےحسین حقّانی کے بطور پاکستانی سفیر مستعفٰی ہونے پرفوری طورپرکوئی تبصرہ کرنے سے یہ کہہ کرانکارکردیا ہےکہ ابھی اسلام آباد سےاُسے سرکاری طورپرکوئی نوٹیفیکیشن (اطلاع) موصول نہیں ہوا ہے۔
واشنگٹن میں دفترخارجہ کی ترجمان وکٹوریہ نلنڈ کا کہنا تھا کہ ’’میموگیٹ‘‘ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے اس لیے وہ اس پر کوئی بیان نہیں دیں گی۔
امریکی کانگریس کے ارکان نے حسین حقانی کے مستعفی ہونے کی خبر پرملے جُلے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔
کانگریس میں پاکستان کاکس کی شریک چئیرپرسن شیلا جیکسن لی نے کہا ہے کہ پاکستان ایک خود مختار ملک ہے اوروہاں سرکاری عہدیدارایک مبینہ فوجی بغاوت کو روکنے کے لیے کیا راستہ اختیار کرتے ہیں اس بارے میں وہ کوئی رائے نہیں دے سکتیں۔
وائس آف امریکہ سے ایک خصوصی انٹرویو میں جیکسن لی نے اس امرپرتشویش ظاہر کی کہ پاکستان میں ایک اور فوجی بغاوت کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا۔ ’’فوجی بغاوتیں خود پاکستان کے لیے نقصان دہ ہیں اورپاکستانی عوام کو یہ سمجھنا چاہیے کہ انہیں امریکہ کے بارے میں کوئی غلط فہمی ہے بھی تو اس کے رد عمل میں بھی انہیں فوج کو اپنی حکومت پر قبضہ کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔‘‘
جیکسن لی نے سابق سفیر حسین حقّانی کی کارکردگی کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اپنے دور میں پاکستان کی نمائندگی اچھی طرح کی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کاکس کےایک اوررکن ڈینا روہراباکر، جو کانگریس میں امورِ خارجہ کمیٹی کے رکن بھی ہیں، نے کہا ہے کہ اگر پاکستانی سفیر پر لگائے گئے الزامات درست ہیں تب بھی انہوں نے یہ قدم جمہوریت کی بقا کے لیےاٹھایا تھا۔
’’کسی بھی جمہوری حکومت کے سفیر کو چاہیے کہ وہ فوجی بغاوت کے خلاف ہو اور اسے روکنے کی کوشش کرے۔ اس شخص کو تو انعام ملنا چاہیے، نہ کہ اسے استعفٰی دینے پر مجبور کیا جائے۔ ‘‘
انہوں نے کہا کہ یہ امراُن کے لیے باعث تشویش ہے کہ پاکستان کی فوج اب بھی اتنی طاقتور ہے کہ ایک جمہوری حکومت کے افسر کو نوکری سے نکلوا سکتی ہے۔
امریکی کانگریس کے ارکان پاکستانی سیاستدانوں کی طرح کسی بھی موضوع پر اپنے موقف بیان کرنے میں آزاد ہیں اوراُن کے تبصرے حکومت وقت کی پالیسی یا نکتہ نظر کی ترجمانی نہیں کرتے۔
حسین حقانی کے مستعفی ہونے کی وجہ پاکستانی نژاد امریکی بزنس مین منصور اعجاز کا یہ دعویٰ ہے کہ اُنھوں نے پاکستانی سفیرکی ہدایت پر صدر آصف علی زرداری سے منسوب ایک خط مئی میں اُس وقت کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف ایڈمرل مائیک ملن کو پہنچایا تھا جس میں پاکستانی فوج اور اس کی خفیہ ایجنسی کے سربراہان کی برطرفی کے سلسلے میں امریکی مدد طلب کی گئی تھی۔