پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پیر کو پاک امریکا تعلقات اور نیٹو سپلائی کے مستقبل سے متعلق بحث نہ ہو سکی اور ایوان کی کارروائی لوڈ شیڈنگ پر احتجاج کی نذر ہو گئی ۔ منگل کو صبح دس بجے دوبارہ اجلاس ہو گا ۔
پیر کومشترکہ اجلاس سے قبل وفاقی وزراء خورشید شاہ اور رضا ربانی نے اپوزیشن کی قیادت چوہدری نثار علی خان ( اپوزیشن لیڈر ،رہنمامسلم لیگ ن) او ر مولانا فضل الرحمن ( سربراہ جے یو آئی ف) سے ملاقات کی اور درخواست کی کہ ایوان کی کارروائی کے دوران لوڈ شیڈنگ پر احتجاج کے بجائے پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات پر بحث کی جائے، لیکن اپوزیشن نے اس درخواست کو مسترد کر دیا۔
چار بجے شروع ہونے والا اجلاس دو گھنٹے تاخیر سے ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی فیصل کریم کنڈی کی صدارت میں شروع ہوا ۔ اپوزیشن لیڈر چوہدری نثار نے توجہ دلائی کہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ پر شہری سڑکوں پر احتجاج کیلئے مجبور ہیں ۔ انہوں نے خبردا ر کیا کہ 48 گھنٹوں کے اندر اندر اگر لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ حل نہ ہوا تو پارلیمنٹ کے اندر اور باہر بھر پور احتجاج کیا جائے گا ۔
اجلاس میں وزیراعظم اور اسپیکر قومی اسمبلی کی عدم موجودگی پر بھی اپوزیشن نے ہنگامہ آرائی کی او رنعرے لگائے ۔ بعد میں اسپیکر فہمیدہ مرزا اجلاس میں حاضر ہوئیں اور اپنی نشست سنبھالی ۔ وفاقی وزیر سید خورشید شاہ نے سوال اٹھایا کہ لوڈ شیڈنگ تو پورے ملک میں ہے ، صرف پنجاب میں ہی توڑ پھوڑ کیوں کی جا رہی ہے ۔پنجاب حکومت 120 ارب کی نادہندہ ہے او رچار برسوں میں صوبائی سطح پر بجلی کا ایک منصوبہ بھی سامنے نہیں آ سکا۔ اس بیان پر ایک مرتبہ پھر ایوان مچھلی بازار بن گیا ۔
بعد میں اسحاق ڈار کے سوال پر نوید قمر نے بتایا کہ اس وقت ساڑھے نو ہزارمیگاواٹ بجلی پیدا کی جا رہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ تمام صوبوں کو برابر بجلی فراہم کی جا تی ہے ۔ صارفین صرف بل جمع کرائیں ، سرچارج کا طریقہ کار بعد میں طے کیا جائے گا ۔ انہوں نے اپوزیشن کو پیشکش کی کہ وہ توانائی کے بحران اور سرچارج کے طریقہ کار پر تجاویز دیں ، ان پر عملدرآمد کیا جائے گا ۔ بعدازاں اجلاس منگل کی صبح دس بجے تک اجلاس ملتوی کر دیا ۔