ایک دہائی سے جاری دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں 40 ہزار افراد کی جانوں کا نذرانہ دینے کے باوجود پاکستانی سیاسی جماعتوں میں اس جنگ سے متعلق واضح اختلاف رائے پائی جاتی ہے۔
اسلام آباد —
گزشتہ کئی عرصے سے چند غیر ملکی خبر رساں ادارے مختلف ذرائع کے حوالے سے شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان میں تقسیم کے دعوے کرتے آرہے ہیں اور خود وزیر داخلہ رحمٰن ملک بار ہا یہ بیانات دے چکے ہیں کہ کالعدم تنظیم ان اختلافات کے پیش نظر اپنے سربراہ حکیم اللہ محسود کے متبادل کی تلاش میں ہے۔ اس کے واضح شواہد اب تک منظرعام پر نہیں آئے اور طالبان کے ترجمان نے مسلسل ان خبروں اور بیانات کی تردید کی ہے۔
مگر دوسری جانب ایک دہائی سے جاری دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں 40 ہزار افراد کی جانوں کا نذرانہ دینے کے باوجود پاکستانی سیاسی جماعتوں میں اس جنگ سے متعلق واضح اختلاف رائے پائی جاتی ہے جوکہ مبصرین و ماہرین کے مطابق جنگ میں کامیابی حاصل نہ کرنے کی بڑی وجہ ہے۔
گزشتہ ہفتے شمال مغربی شہر پشاور میں صوبائی سینیئر وزیر بشیر احمد بلور کی ایک خود کش حملے میں ہلاکت کی تمام مذہبی اور سیاسی جماعتوں نے پر زور مذمت کی لیکن دہشت گردی کے خلاف جنگ یا شدت پسندوں کے خلاف بھر پور کارروائی کو تیز کرنے کی حمایت کرنے سے چند بڑی جماعتیں اب بھی اجتناب کرتی ہیں۔
بشیر بلور اور ملک میں دیگر مہلک حملوں کی طالبان کی طرف سے ذمہ داری قبول کرنے کے اعلانات کے باوجود جمیعت علماء اسلام کے مرکزی رہنما اور سینیٹر غفور حیدری کا کہنا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ طالبان کا نام استعمال کیا گیا ہو اور اس کے پیچھے کوئی اور قوتیں ہوں۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے پیر کو گفتگو میں سوات اور دیگر علاقوں میں فوجی کارروائیوں کی وجوہات پر بھی سوالات اٹھائے۔
’’ہم نے ابھی دیکھنا ہے کہ کیا سوات میں صورتحال بنائی اور اس کے پیچھے صوبائی اور وفاقی حکومتوں کے عزائم تھے یا وہاں کے لوگ خود شدت پسندی پر اتر آئے؟‘‘
پاکستانی فوج نے سوات میں آپریشن مئی 2009 ء میں شروع کیا جب شدت پسندوں نے اس پر فضا وادی میں اپنا واضح کردہ ’’اسلامی نظام‘‘ نافذ کرنے کا اعلان کیا اور اپنی عدالت قائم کیں۔
جمعیت 2008ء کے انتخابات میں بننے والی پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت کا اگلے تین سال تک حصہ رہی اور اس کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اور دیگر رہنماء پرتشدد حملوں کا نشانہ بنے ہیں۔
غفور حیدری کا کہنا تھا کہ قبائلی علاقے وزیرستان میں بھی ایسے حالات پیدا کیے جا رہے ہیں کہ وہاں کے لوگ فوج کے خلاف اٹھیں اور پھر ان کے خلاف جنگ کو پاکستان کی جنگ قرار دیا جائے۔
جماعت اسلامی کے سربراہ منور حسن نے ملک میں جاری دہشت گردی کے خلاف جنگ کو امریکہ کی جنگ گردانتے ہوئے کہا کہ حکومت وقت کو اس جنگ سے باہر ہو جانا چاہیئے۔
’’ٰیہ نہ ہماری جنگ ہے، نہ تھی اور نہ ہوگی۔ جب سے ہم اس جنگ میں شریک ہوئے امریکہ ہم پر حملہ آور بھی ہوا۔ ہماری امداد بھی کم کرتا ہے۔ ہماری فوج کے خلاف چارج شیٹ بھی بناتا ہے۔ تو وہ کون سا نقطہ ہے جس سے باور کیا جائے کہ یہ ہماری جنگ ہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں ان کے بقول شکست کے بعد اب امریکہ اس کا بدلہ لینے کے لیے پاکستان میں یہ تمام پر تشدد کارروائیاں کر رہا ہے۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف لڑائی اس کی اپنی جنگ ہے اور اس سے جیتنے کے لیے ہر ممکن اقدامات اٹھائے جائیں گے۔
سوات میں ملالہ یوسفزئی یا کراچی اور خیبر پختونخواہ میں پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے والی ٹیموں پر شدت پسندوں کے حملے ہوں پارلیمان میں حزب اختلاف کے لیڈر چوہدری نثار علی انہیں آئندہ انتحابات کو ملتوی کرنے کی سازش قرار دیتے رہے ہیں جبکہ عمران خان اور ان کی جماعت شدت پسندوں کے خلاف فوجی کارروائی حمایت سے گریز کرتے ہیں۔
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومت سے باہر کی جماعتوں نے یہ موقف اس لیے اختیار کر رکھا ہے کیونکہ وہ آئندہ انتخابات میں دائیں بازوں اور قدامت پسند ووٹروں پر نظر لگائے بیٹھے ہیں۔
مگر دوسری جانب ایک دہائی سے جاری دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں 40 ہزار افراد کی جانوں کا نذرانہ دینے کے باوجود پاکستانی سیاسی جماعتوں میں اس جنگ سے متعلق واضح اختلاف رائے پائی جاتی ہے جوکہ مبصرین و ماہرین کے مطابق جنگ میں کامیابی حاصل نہ کرنے کی بڑی وجہ ہے۔
گزشتہ ہفتے شمال مغربی شہر پشاور میں صوبائی سینیئر وزیر بشیر احمد بلور کی ایک خود کش حملے میں ہلاکت کی تمام مذہبی اور سیاسی جماعتوں نے پر زور مذمت کی لیکن دہشت گردی کے خلاف جنگ یا شدت پسندوں کے خلاف بھر پور کارروائی کو تیز کرنے کی حمایت کرنے سے چند بڑی جماعتیں اب بھی اجتناب کرتی ہیں۔
بشیر بلور اور ملک میں دیگر مہلک حملوں کی طالبان کی طرف سے ذمہ داری قبول کرنے کے اعلانات کے باوجود جمیعت علماء اسلام کے مرکزی رہنما اور سینیٹر غفور حیدری کا کہنا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ طالبان کا نام استعمال کیا گیا ہو اور اس کے پیچھے کوئی اور قوتیں ہوں۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے پیر کو گفتگو میں سوات اور دیگر علاقوں میں فوجی کارروائیوں کی وجوہات پر بھی سوالات اٹھائے۔
’’ہم نے ابھی دیکھنا ہے کہ کیا سوات میں صورتحال بنائی اور اس کے پیچھے صوبائی اور وفاقی حکومتوں کے عزائم تھے یا وہاں کے لوگ خود شدت پسندی پر اتر آئے؟‘‘
پاکستانی فوج نے سوات میں آپریشن مئی 2009 ء میں شروع کیا جب شدت پسندوں نے اس پر فضا وادی میں اپنا واضح کردہ ’’اسلامی نظام‘‘ نافذ کرنے کا اعلان کیا اور اپنی عدالت قائم کیں۔
جمعیت 2008ء کے انتخابات میں بننے والی پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت کا اگلے تین سال تک حصہ رہی اور اس کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اور دیگر رہنماء پرتشدد حملوں کا نشانہ بنے ہیں۔
غفور حیدری کا کہنا تھا کہ قبائلی علاقے وزیرستان میں بھی ایسے حالات پیدا کیے جا رہے ہیں کہ وہاں کے لوگ فوج کے خلاف اٹھیں اور پھر ان کے خلاف جنگ کو پاکستان کی جنگ قرار دیا جائے۔
جماعت اسلامی کے سربراہ منور حسن نے ملک میں جاری دہشت گردی کے خلاف جنگ کو امریکہ کی جنگ گردانتے ہوئے کہا کہ حکومت وقت کو اس جنگ سے باہر ہو جانا چاہیئے۔
’’ٰیہ نہ ہماری جنگ ہے، نہ تھی اور نہ ہوگی۔ جب سے ہم اس جنگ میں شریک ہوئے امریکہ ہم پر حملہ آور بھی ہوا۔ ہماری امداد بھی کم کرتا ہے۔ ہماری فوج کے خلاف چارج شیٹ بھی بناتا ہے۔ تو وہ کون سا نقطہ ہے جس سے باور کیا جائے کہ یہ ہماری جنگ ہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں ان کے بقول شکست کے بعد اب امریکہ اس کا بدلہ لینے کے لیے پاکستان میں یہ تمام پر تشدد کارروائیاں کر رہا ہے۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف لڑائی اس کی اپنی جنگ ہے اور اس سے جیتنے کے لیے ہر ممکن اقدامات اٹھائے جائیں گے۔
سوات میں ملالہ یوسفزئی یا کراچی اور خیبر پختونخواہ میں پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے والی ٹیموں پر شدت پسندوں کے حملے ہوں پارلیمان میں حزب اختلاف کے لیڈر چوہدری نثار علی انہیں آئندہ انتحابات کو ملتوی کرنے کی سازش قرار دیتے رہے ہیں جبکہ عمران خان اور ان کی جماعت شدت پسندوں کے خلاف فوجی کارروائی حمایت سے گریز کرتے ہیں۔
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومت سے باہر کی جماعتوں نے یہ موقف اس لیے اختیار کر رکھا ہے کیونکہ وہ آئندہ انتخابات میں دائیں بازوں اور قدامت پسند ووٹروں پر نظر لگائے بیٹھے ہیں۔