سال2011ء اپنے دامن میں بہت سی اہم اور بڑی شخصیات کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سمیٹ کر لے جارہا ہے۔ ان بارہ مہینوں میں انتقال کرجانے والی شخصیات کی فہرست یوں تو بہت طویل ہے مگر کچھ اہم افراد جو اس سال ہم سے بچھڑ گئے ان کی تفصیلات کچھ یوں ہیں:
چار جنوری کو صوبہ پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کو اسلام آباد میں ان ہی کے سیکورٹی گارڈ ممتاز قادری نے فائرنگ کرکے اس وقت قتل کردیا جب وہ کوہسار کے علاقے میں ایک ہوٹل سے نکل کر گاڑی میں بیٹھ رہے تھے۔ اسی روز ممتاز کلاسیکل استاد، موسیقار اور غزل گائیک ظفر علی حرکت قلب بند ہونے سے کراچی میں انتقال کر گئے۔ 4جنوری کو ہی برطانوی نشریاتی ادارے سے وابستہ سینئر صحافی محمد غیور طویل علالت کے باعث لندن میں انتقال کرگئے۔
اسی طرح 10جنوری کو سابق وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر14، جنوری کو پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس اور آل پاکستان نیوز پیپرز ایمپلائز کنفیڈریشن کے بانی منہاج برنا ،19جنوری کو معروف شاعر راغب مراد آبادی 28 جنوری کو ایک اور معروف شاعراور نعت خواں مظفر وارثی انتقال کرگئے۔
سال کا دوسرا مہینہ شروع ہوا تو 13فروری کو ایک سا تھ دو اہم شخصیات نے دنیا کو الوداع کہا۔ یہ تھے سابق وزیراعلیٰ سندھ یوسف ہارون اور سابق گورنر جہاندادخان ۔
ہفتہ 4مارچ کو ممتاز شاعر عزم بہزاد،30 مارچ کوٹی وی کے نامور اداکار لیاقت سولجر ، 6اپریل کومعروف محقق، دانشور اور ماہر تعلیم ڈاکٹر نبی بخش بلوچ ، گیارہ اپریل کو ا سٹیج کے معروف مزاحیہ اداکار مستانہ، 15 اپریل کو ایک اور مشہورکامیڈین ببو برال، 22اپریل کو پاکستان ٹی وی کے مایہ ناز اور معرکتہ الاراء ڈراموں کی آبرو معین اختر جبکہ 29اپریل کو معروف ادیب اے حمید نے اس فانی دنیا سے کوچ کیا۔
مئی کے مہینے میں دواور شخصیات ہم سے روٹھیں ۔ 24مئی کو صدر زرداری کے والد حاکم علی زرداری جبکہ 26مئی کو فلمساز غفار دانہ والانے کراچی میں انتقال کیا۔
جون کے نوے دن عالمی شہرت یافتہ بھارتی مصور ایم ایف حسین نے انتقال کیا تو اسی دن پاکستان میں معروف اداکار جمیل فخری انتقال کرگئے۔ 16جون کوسندھی کے معروف شاعر حسن درس حیدرآباد میں سڑک کے ایک حادثے میں ہلاک ہوئے۔
بیس جون کو لالی ووڈ انڈسڑی کو اس وقت ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑا جب انگنت سریلے گیتوں اورفلمی کہانیوں کے خالق خواجہ پرویز انتقال کر گئے۔
14 اگست کو 79سال کی عمر میں بھارتی اداکار شمی کپور چل بسے۔ 21ستمبر کو معروف قوال حاجی مقبول صابری جنوبی افریقا میں، 22ستمبر کو دہلی میں منصور علی خان نواب پٹودی ، جبکہ 10 اکتوبر کو غزل اور انگنت ناقابل فراموش نغموں کو اپنی آواز کا عطیہ دینے والے جگجیت سنگھ اس جہان فانی سے رخصت ہوئے۔
18اکتوبرکو ترقی پسند دانشور حمید اختر ، 22اکتوبر کو پاکستان سابق خاتون اول بیگم نصرت بھٹو، 6نومبر کو بھارتی موسیقار اورگلوکار بھوپن ہزاریکا ، 21نومبر کو بزرگ صحافی وتحریک پاکستان کے کارکن مصطفی صادق ،24نومبرکو سابق وفاقی وزیر غلام محمد مانیکا ، 24نومبر کو ہی مشہور زمانہ نظم ”تم کتنے بھٹو مارو گے“ کے خالق نصیر قوی کا انتقال ہوا۔
دسمبر کا آخری مہینہ شروع ہوا تو اس کے چوتھے روز ہی منفرد پہچان اور سدا بہار ہیرو کا خطاب رکھنے والے بھارتی اداکار دیوآنند دار فانی سے کوچ کرگئے۔ 15دسمبر کو پاک فضائیہ کے سابق سربراہ ایئرمارشل (ر) نورخان انتقال کرگئے جبکہ اس کے چار دن بعد یعنی 19دسمبر کو شمالی کوریا کے صدر کم جونگ ال نے دنیا تیاگی۔