پاکستان میں پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے 50 لاکھ گھروں کی تعمیر کے اپنے انتخابی وعدے پر عمل درآمد کب ہو گا، کیسے ہو گا۔ اس بارے میں ابھی صورت حال واضح نہیں ہوئی لیکن تعمیراتی شعبے کے ماہرین کے لیے امیدوں اور توقعات کا راستہ ضرور کھل گیا ہے۔
بلوچستان کی ایک ماہر تعمیرات اور تعمیراتی ڈیزائنز کی ایک کمپنی ٹائم لائن ڈیزائنز کی فاؤنڈر اور پرنسپل آرکیٹیکٹ نمرا قاضی نے وائس آف امریکہ کو ایک انٹرویو دیتے ہوئےکہا کہ آب و ہوا اور ماحولیات کے موجودہ حالات اور تقاضوں کے تناظر میں فن تعمیر ایک ایسا واحد شعبہ ہے جو نمایاں طور پر ترقی کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر ہم آبادی میں اضافے کو گھروں کی قلت کے پس منظر میں دیکھتے ہیں تو شاید 50 لاکھ گھروں سے متعلق ہمارے پرائم منسٹر کا فلیگ شپ پراجیکٹ اسی وجہ سے تھا کہ آبادی میں اضافے اور گھروں کی قلت کے درمیان موجود خلا کو پورا کیا جائے۔ تو یہ ہماری ڈیولپمنٹ اینڈ ڈیزائن کنسٹرکشن انڈسٹری کے حوالے سے ایک بڑا موقع ہے۔
نمرا قاضی نے کہا کہ 50 لاکھ گھروں کی تعمیر کے حوالے سے پاکستان میں فن تعمیر کے شعبےکے ماہرین کو جہاں اہم مواقع حاصل ہوں گے وہاں انہیں اہم ذمہ داری بھی سنبھالنا ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ اب ہم صرف آرکیٹیکٹس یعنی معمار کی نظر سے نہیں دیکھے جاتے بلکہ ہم ماحولیاتی تعمیرات کے علمبردار کے طور پر بھی دیکھے جاتے ہیں جنہیں یہ علم ہے کہ گلوبل وارمنگ کیا ہے۔ اور اس لیے ہم مستقبل میں اپنے ڈیزائنز کے ذریعے ایسے فیصلے کر سکتے ہیں جس سے ہماری آب و ہوا، ہماری فضا، ہمارا ماحول منفی طور پر متاثر نہ ہو۔
پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر پر وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اسلام آباد میں ایک آرکیٹیکٹ اور این وائرنمینٹل ڈیزائنر، محمد عبید حنیف نے کہا کہ حکومت کی طرف سے 50 لاکھ گھروں کی بات ایک اچھا اقدام ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ ایک آرکیٹیکٹ اینوائرنمینٹل ڈیزائنر کے طور پر ان کے پاس ابھی تک کوئی معلومات نہیں ہیں کہ 50 لاکھ گھر کہاں بن رہےہیں اور کیسے بن رہے ہیں۔ لیکن اگر ہم سے یہ پوچھا جائے کہ یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔ تو اس کے لیے سب سے پہلی بات تو یہ کہ انہیں پائیدار ہونا چاہیے، ماحول دوست ہونا چاہیے۔ پھر ان میں قدرتی روشنی اور ہوا کا مناسب گزر ہونا چاہیے۔ ان میں پائیدار اور جدید تعمیراتی مواد استعمال ہونا چاہیے۔
عبید حنیف نے کہا نئے مکانات میں بارش کے پانی کو بھی اپنے استعمال میں لانے کی گنجائش ہونی چاہیے۔ اسی طرح اگر آپ ان میں روف گارڈننگ یا ورٹیکل گارڈننگ کر سکیں گے تو توانائی کی کھپت کم ہو گی۔ اسی طرح سردیوں میں گھر کم ٹھنڈے اور گرمیوں میں کم گرم ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ یہ تعمیرات کے بنیادی اصول ہیں جن کی بنیاد پر ان گھروں کو ڈیزائن کرنا چاہیے۔
نمرا قاضی نے اس سلسلے میں اپنی تجاویز میں کہا کہ پانچ ملین ایک بڑے اسکیل اور اسکوپ کا کام ہے اور اس میں ہمارے پاس بہت سے ایسے مواقع ہیں جنہیں ہم بروئے کار لا سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر ہم پائیدار ڈیزائن یعنی ماحول دوست، یعنی گرین تعمیرات ہی کی بات کر لیں تو وہ ایک بہت بڑا ایریا ہے جہاں ہم کام کر سکتے ہیں۔ گھروں کے حوالے سے ہم 50 لاکھ گھروں کے اس پراجیکٹ کے تحت کم آمدنی والے لوگوں کے گھروں پر کام کر سکتے ہیں۔ ہم پری فیبریکیٹد ڈیزائنز پر کام کر سکتے ہیں، اور پائیدار ترقی کے اہداف پر کام کر سکتے ہیں، جن میں پاکستان کافی پیچھے ہے۔ پچاس لاکھ گھروں کے اس فلیگ شپ پراجیکٹ کے ذریعے یہ ہمارے لیے درست کام کرنے کا ایک بہت بڑا موقع ہے۔
عبید حنیف نے کہا کہ 50 لاکھ گھروں کی تعمیر کے پراجیکٹ پر عمل درآمد کرتے ہوئے ایک ماسٹر پلان کی تشکیل انتہائی اہمیت رکھتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں مجموعی طور پر مستقبل میں ہمارے پاس دیرپا ماحول دوست منصوبے موجود نہیں۔ ہمیں ابھی تک یہ علم نہیں کہ مستقبل کے یہ شہر کہاں ہوں گے۔ ہماری قابل کاشت زمینیں ہاؤسنگ سوسائیٹیز میں تبدیل ہو رہی ہیں۔ اس عمل کو روکنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں نئے آبادیوں کی تعمیر کے لیے ایسے مقامات کا تعین کرنا چاہیے جو زراعت کے لیے موزوں نہ ہوں تاکہ زرخیز زمینوں کو ضائع ہونے سے بچایا جا سکے۔
نمرا قاضی نے کہا کہ انہیں امید ہے 50 لاکھ گھروں کی تعمیر کا یہ منصوبہ جب بھی آگے بڑھے گا تو ملک میں تعمیرات اور اس سے منسلک شعبوں کے ماہرین کے لیے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے اور وہ ملک کی تعمیر و ترقی میں ایک اہم کردار ادا کر سکیں گے۔