پاکستان کے وزیردفاع خواجہ آصف نے دعویٰ کیا ہے کہ افغانستان کے ساتھ سرحد پر تازہ کشیدگی کابل اور نئی دہلی کے گٹھ جوڑ کی عکاسی کرتی ہے اور ان کے بقول پاکستان اپنی جغرافیائی سرحدوں کی صورتحال پر کڑی نظر رکھے ہوئے اور مستقبل میں کسی بھی سرحدی خلاف ورزی کا بھرپور جواب دینے کے لیے تیار ہے۔
جمعہ کو پاکستان کے جنوب مغربی سرحدی شہر چمن کے قریب سرحد پار سے افغان سکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے کم ازکم 11 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے تھے۔
اس پر پاکستانی فورسز نے بھی جوابی فائرنگ کی تھی جس میں افغانستان کی طرف بھی جانی نقصان کی اطلاعات موصول ہوئیں۔
افغان حکام کے بقول سرحدی علاقے میں مردم شماری کرنے والے پاکستانی کارکنوں کو افغان سرحد میں داخل نہ ہونے کے انتباہ کو نظر انداز کیے جانے کے بعد یہ کارروائی کی گئی۔ لیکن پاکستان کا موقف ہے کہ مردم شماری کرنے والے اہلکار پاکستانی حدود میں ہی موجود تھے۔
ہفتہ کو سیالکوٹ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ پاکستان، افغانستان کے ساتھ پرامن تعلقات چاہتا ہے لیکن اس ضمن میں اسلام آباد کی کوششوں کا کابل کی طرف سے مثبت ردعمل سامنے نہیں آیا۔
پاکستان پہلے بھی یہ الزام عائد کرتا آیا ہے کہ بھارت، افغانستان میں اپنا اثرورسوخ استعمال کر کے پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن نئی دہلی اور کابل دونوں ہی ان دعوؤں کو مسترد کرتے ہیں۔
گزشتہ ایک سال سے پاکستان کے اپنے مشرقی پڑوسی بھارت اور مغربی ہمسایے افغانستان کے ساتھ تعلقات تناؤ کا شکار چلے آ رہے ہیں۔
حالیہ مہینوں میں دوطرفہ کشیدگی کو کم کرنے کے لیے پاکستان اور افغانستان کے درمیان وفود کے غیر رسمی تبادلے بھی ہو چکے ہیں۔
سینیئر تجزیہ کار ڈاکٹر اے زیڈ ہلالی پاکستان اور افغانستان کے درمیان پیدا ہونے والی تازہ تلخی کو خطے کے امن کے لیے اچھا شگون نہیں سمجھتے اور وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ اس تناؤ میں کمی کے لیے امریکہ کو کردار ادا کرنا چاہیے۔
انھوں نے ایک بار پھر مشترکہ مفادات کے حصول کے لیے باہمی تعاون کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ مستحکم افغانستان اور پرامن پاکستان لازم و ملزوم ہیں۔