وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ملا بردار سے ملاقات کے لیے جب بھی افغان امن کونسل کی جانب سے رابطہ کیا گیا تو اس معاملے کو آگے بڑھایا جائے گا۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ حال ہی میں رہا کیے جانے والے طالبان کے سابق نائب امیر ملا عبدالغنی برادر سے ملاقات کے لیے افغان امن کونسل نے رابطہ نہیں کیا ہے۔
وزارتِ خارجہ کے ترجمان اعزاز احمد چودھری نے جمعرات کو ہفتہ وار نیوز کانفرنس سے خطاب میں ایک مرتبہ پھر حکومتِ پاکستان کے موقف کو دہراتے ہوئے کہا کہ ملا برادر جس سے چاہیں ملاقات کر سکتے ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ ملا بردار سے ملاقات کے لیے جب بھی افغان امن کونسل کی جانب سے رابطہ کیا گیا تو اس معاملے کو آگے بڑھایا جائے گا۔
’’وہ (ملا عبد الغنی برادر) آزاد ہیں کسی سے ملنے کے لیے تاکہ مفاہمتی عمل کو آگے بڑھایا جا سکے جہاں تک افغان اعلٰی امن کونسل یا کسی کے آنے کا سوال ہے تو اس بارے میں ہمارے پاس کوئی مصدقہ اطلاع نہیں ہے۔‘‘
افغانستان میں جاری مفاہمتی عمل اور طالبان سے بات چیت کے تناظر میں ملا برادر کی رہائی کو اہم قرار دیا جاتا رہا ہے اور پاکستان کا موقف بھی یہی رہا ہے کہ اس نے ملا برادر سمیت اپنے ہاں قید 34 افغان طالبان کو مصالحتی کوششوں کو تقویت دینے کے لیے رہا کیا۔
رواں ہفتے لندن میں پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف، اُن کے برطانوی ہم منصب ڈیوڈ کیمرون اور افغان صدر حامد کرزئی کے درمیان سہ فریقی اجلاس ہوا جس میں افغانستان میں مصالحتی عمل کو آگے بڑھانے پر بھی بات چیت کی گئی۔
اس ملاقات کے بعد بدھ کو کابل میں صدارتی محمل سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ افغانستان کے اعلیٰ حکام کا وفد طالبان کے سابق نائب سربراہ ملا عبدالغنی برادر سے مذاکرات کے لیے جلد پاکستان کا دورہ کرے گا۔
اُدھر وزیر اعظم نواز شریف کے مشیر برائے اُمور خارجہ و قومی سلامتی سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ پاکستان افغانستان کے مصالحتی عمل کی ہر ممکن حمایت جاری رکھے گا۔
’’ابھی تک طالبان اعلیٰ امن کونسل سے بات چیت کے لیے تیار نہیں ہیں، لیکن غیر رسمی طور پر ان کے رابطے ہیں مختلف لوگوں کے ساتھ اور کونسل کے لوگوں کے ساتھ بھی تو ہم اپنی طرف سے کوشش کریں گے کہ ان کی ملاقات اعلیٰ امن کونسل کے نمائندوں سے ہو لیکن وہ بھی اپنی طرف سے اپنی کوششیں جاری رکھیں۔‘‘
سرتاج عزیز کا کہنا تھا برطانیہ میں ہونے والی ملاقات میں پاک افغان سرحد کی نگرانی کو بہتر بنانے پر بھی اتفاق کیا گیا اور اُن کے بقول افغان وزیر داخلہ جلد اس سلسلے میں اسلام آباد کا دورہ کر کے متعلقہ حکام سے ملاقاتیں بھی کریں گے۔
وزارتِ خارجہ کے ترجمان اعزاز احمد چودھری نے جمعرات کو ہفتہ وار نیوز کانفرنس سے خطاب میں ایک مرتبہ پھر حکومتِ پاکستان کے موقف کو دہراتے ہوئے کہا کہ ملا برادر جس سے چاہیں ملاقات کر سکتے ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ ملا بردار سے ملاقات کے لیے جب بھی افغان امن کونسل کی جانب سے رابطہ کیا گیا تو اس معاملے کو آگے بڑھایا جائے گا۔
’’وہ (ملا عبد الغنی برادر) آزاد ہیں کسی سے ملنے کے لیے تاکہ مفاہمتی عمل کو آگے بڑھایا جا سکے جہاں تک افغان اعلٰی امن کونسل یا کسی کے آنے کا سوال ہے تو اس بارے میں ہمارے پاس کوئی مصدقہ اطلاع نہیں ہے۔‘‘
افغانستان میں جاری مفاہمتی عمل اور طالبان سے بات چیت کے تناظر میں ملا برادر کی رہائی کو اہم قرار دیا جاتا رہا ہے اور پاکستان کا موقف بھی یہی رہا ہے کہ اس نے ملا برادر سمیت اپنے ہاں قید 34 افغان طالبان کو مصالحتی کوششوں کو تقویت دینے کے لیے رہا کیا۔
رواں ہفتے لندن میں پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف، اُن کے برطانوی ہم منصب ڈیوڈ کیمرون اور افغان صدر حامد کرزئی کے درمیان سہ فریقی اجلاس ہوا جس میں افغانستان میں مصالحتی عمل کو آگے بڑھانے پر بھی بات چیت کی گئی۔
اس ملاقات کے بعد بدھ کو کابل میں صدارتی محمل سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ افغانستان کے اعلیٰ حکام کا وفد طالبان کے سابق نائب سربراہ ملا عبدالغنی برادر سے مذاکرات کے لیے جلد پاکستان کا دورہ کرے گا۔
اُدھر وزیر اعظم نواز شریف کے مشیر برائے اُمور خارجہ و قومی سلامتی سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ پاکستان افغانستان کے مصالحتی عمل کی ہر ممکن حمایت جاری رکھے گا۔
’’ابھی تک طالبان اعلیٰ امن کونسل سے بات چیت کے لیے تیار نہیں ہیں، لیکن غیر رسمی طور پر ان کے رابطے ہیں مختلف لوگوں کے ساتھ اور کونسل کے لوگوں کے ساتھ بھی تو ہم اپنی طرف سے کوشش کریں گے کہ ان کی ملاقات اعلیٰ امن کونسل کے نمائندوں سے ہو لیکن وہ بھی اپنی طرف سے اپنی کوششیں جاری رکھیں۔‘‘
سرتاج عزیز کا کہنا تھا برطانیہ میں ہونے والی ملاقات میں پاک افغان سرحد کی نگرانی کو بہتر بنانے پر بھی اتفاق کیا گیا اور اُن کے بقول افغان وزیر داخلہ جلد اس سلسلے میں اسلام آباد کا دورہ کر کے متعلقہ حکام سے ملاقاتیں بھی کریں گے۔