پاکستان میں دہائیوں سے مقیم افغان پناہ گزین اب اپنے وطن واپس آنا تو شروع ہو گئے اور رضاکارانہ طور پر واپس آنے والوں کو اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین "یو این ایچ سی آر" کی طرف سے مراعات بھی دی جا رہی ہیں لیکن اپنے آبائی وطن آنے والے لوگ کچھ نالاں بھی دکھائی دیتے ہیں۔
حال ہی میں پاکستان سے واپس آنے والے پانچ سو افغان پناہ گزین مشرقی صوبہ لغمان کے ایک علاقے گیری لختی کے میدان میں ایک مشکل صورتحال میں گزر اوقات کر رہے ہیں۔
یہاں نہ تو ان کو پینے کا صاف پانی میسر ہے اور نہ ہی زندگی کی باقی بنیادی سہولتیں۔
یہ لوگ وطن واپس آتے ہوئے بہت سا سامان بھی اپنے ساتھ لائے جن میں ریفریجریٹر اور ایئر کنڈیشنرز بھی شامل ہیں، لیکن ان کے بقول یہاں یہ چیزیں ان کے لیے بالکل بیکار ہیں کیونکہ یہاں بجلی کی سہولت دور دور تک موجود نہیں۔
یہاں موجود تانیہ نامی خاتون کہتی ہیں کہ انھیں پینے کا صاف پانی نہ ملنے کے مسئلے کا سامنا ہے اور ان کے بقول جو پانی کا یہاں ذخیرہ ہے اس میں "کیڑے بھی ہیں۔"
بیماری کی صورت میں یہ لوگ علاج معالجے سے بھی محروم ہیں کیونکہ اگر کوئی بیمار ہوتا ہے تو اسے 15 کلومیٹر کا سفر کر کے شفاخانے جانا پڑتا ہے۔
افغان حکومت کی طرف سے یہ کہا گیا کہ تھا کہ وہ پناہ گزینوں کی آبادکاری کے لیے منصوبہ تیار کر چکے ہیں جس کے تحت انھیں رہائش اور روزگار کے لیے سہولت فراہم کی جائے گی۔
تاہم گیری لختی میں خیمہ لگا کر گزر بسر کرنے والے حکمت اللہ کہتے ہیں کہ یہاں تو انھیں کوئی پوچھنے بھی نہیں آیا۔
موسم خراب ہونے کی صورت میں ان لوگوں کے لیے زندگی اور مشکل ہو جاتی ہے اور تیز ہوائیں جب چلتی ہیں تو ان کے لیے اپنے خیموں کو قائم کرنا بھی دشوار ہو جاتا ہے۔
لغمان میں پناہ گزینوں کی دیکھ بھال کے محکمے کے ایک عہدیدار کاظم حقیال نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ گیری لختی میں آنے والے ان لوگوں کا علم نہیں تھا اور اس طرف توجہ دلائے جانے کے بعد اب وہ اپنے کارکنان کو وہاں بھیجیں گے اور صورتحال کا جائزہ لے کر ان کی مدد کے لیے اقدام کیے جائیں گے۔