قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان غلام خان کے مقام پر سرحدی گزرگاہ کو تین سال کے بعد پیر سے آمدورفت کے لیے دوبارہ کھولا جا رہا ہے۔
جون 2014ء میں شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشن ضرب عضب شروع ہونے کے بعد اس گزرگاہ کو ہر قسم کی آمدورفت کے لیے بند کر دیا گیا تھا۔
دونوں ملکوں کے درمیان طورخم اور چمن کے علاوہ غلام خان اور کرم ایجنسی میں خارلاچی سرحدی گزرگاہیں اہم تصور کی جاتی ہیں۔ خارلاچی کے سرحدی راستے کو بھی تقریباً چار ماہ کی بندش کے بعد گزشتہ ماہ ہی بحال کیا گیا تھا۔
شمالی وزیرستان کی پولیٹیکل انتظامیہ کے مطابق غلام خان سرحدی گزرگاہ پر نقل و حمل کی بحالی کے انتظامات مکمل کر لیے گئے ہیں اور تمام متعلقہ اداروں نے اپنے اپنے اہلکار بھی مامور کر دیے ہیں۔
پیر سے یہ راستہ نہ صرف عام شہریوں کی آمدورفت بلکہ تجارتی اور کاروباری سامان کی نقل و حمل کے لیے بھی بحال کر دیا جائے گا۔
شمالی وزیرستان کی ایک اہم کاروباری شخصیت محسن داوڑ نے اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اسے مقامی آبادی کے معاشی سرگرمیوں کے لیے ایک خوش آئند پیش رفت قرار دیا۔
"اس کا مقامی معشیت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے کیونکہ یہاں کے لوگوں کی گزر بسر کا زیادہ انحصار افغانستان کے ساتھ تجارت پر ہے، لیکن سنا ہے کہ یہ عارضی طور پر کھولا جا رہا ہے لیکن میرا خیال ہے کہ اسے مستقبل بنیادوں پر کھول دینا چاہیے۔ اب یہ راستہ کھلا رہتا ہے تو بہت خوش آئند اقدام ہو گا اور خاص طور پر وزیرستان کی تعمیر نو کے لیے بھی اہم کردار ادا کرے گا۔"
ان کا کہنا تھا کہ صوبہ خیبر پختونخواہ کے جنوبی اضلاع اور افغانستان کے لیے یہ بہت ہی آسان راستہ ہے اور اس سے دوطرفہ سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہو گا۔
سرحدی علاقے میں افغان تجارتی برادری کے ایک سرکردہ راہنما محمد نور احمد زئی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ یہ سرحدی راستہ کھلنے سے دونوں ملکوں کی تاجر برادری کو بہت فائدہ ہو گا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس اقدام سے چمن اور طورخم کی سرحدی گزرگاہوں پر رش بھی کم ہو سکے گا۔
غلام خان کی سرحدی گزرگاہ سے افغان صوبہ خوست کے لیے رسائی آسان ہے اور روزانہ کی بنیاد پر اشیائے ضروری کے علاوہ تعمیراتی سامان سے لدے ٹرک بھی سرحد کے آر پار جاتے ہیں۔