وزارت خارجہ کی ترجمان نے بھی طالبان شدت پسندوں کی دھمکیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے افغان عوام کے ’’دلیرانہ‘‘ انداز میں انتخاب میں حصہ لینے کی تعریف کی۔
اسلام آباد —
پاکستان نے افغانستان میں صدارتی انتخابات کے مجموعی طور پر پرامن اور کامیاب انعقاد کو سراہتے ہوئے اسے افغانستان اور خطے میں قیام امن کے لیے اہم قدم قرار دیا۔
وزیراعظم نواز شریف نے اتوار کو ایک بیان میں اس عزم کا اعادہ کیا کہ اسلام آباد نئی افغان قیادت سے مل کر علاقے میں امن و سکون کے لیے کام کرے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ انتخابات میں افغان عوام کی بڑی تعداد میں شرکت اس بات کی مظہر ہے کہ وہ ملک میں جمہوری نظام کے فروغ کے لیے پرعزم ہیں۔
وزارت خارجہ کی ترجمان نے بھی طالبان شدت پسندوں کی دھمکیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے افغان عوام کے "دلیرانہ انداز" میں انتخاب میں حصہ لینے کی تعریف کی۔
کابل میں پاکستان کے سفیر سید ابرار حسین نے وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد افغانستان میں جمہوری نظام کا حامی ہے۔
’’ہماری کوشش ہوگی کہ ان کی جو بھی نئی قیادت آئے افغانستان کے ساتھ تعلقات بہتر سے بہتر ہوسکیں۔ الیکشن سے پہلے بھی یہاں پوری طرح یقین دہانی کروائی تھی کہ ہم کسی کی طرف نہیں ہیں۔ ہم افغان عوام کے ساتھ ہیں۔ وہ جسے چاہیں منتخب کریں ہمیں تسلیم ہوگا اور ہم اس کے ساتھ مل کر کام کرنے کی کوشش کریں گے۔‘‘
پاکستان پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ افغانستان میں پشتون آبادی کی حمایت کرتے ہوئے اسے مختلف طریقوں سے اقتدار میں لانے کی کوششیں کرتا ہے۔ تاہم پاکستان نے ہمیشہ اس تاثر اور الزام کی تردید کی ہے۔
مبصرین اور پاکستانی قانون سازوں کے مطابق خطے کی سلامتی کی صورتحال اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ پاکستان اور افغانستان میں پایا جانے والا عدم اعتماد کم ہو۔
حزب اختلاف کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر اور قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کے رکن فرحت اللہ بابر کہتے ہیں کہ دونوں ہمسایہ ملکوں کو ماضی میں رہنے کی بجائے ماضی کی تلخیوں اور تجربات سے سبق سیکھتے ہوئے مل کر کام کرنا ہوگا۔
’’یہ سوچ لیا جائے کہ بد ترین صورتحال ہوگی اور وہاں خانہ جنگی شروع ہو جائے اور وہ غیر ملکی فوجوں کو وہاں نا چھوڑیں تو ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ پہلا یہ ہے کہ باڈر منجمینٹ کو بہتر کرنا ہوگا۔ باڈر پر تنازع ہوسکتا ہے منجمینٹ پر نہیں۔ اگر ایسا نا ہوا تو پاکستانی اور افغان طالبان مل کر مضبوط ہوجائیں گے۔ افغان کو بھی نشانہ بنائیں گے اور پاکستان کو بھی۔‘‘
امریکہ کے ووٹ رو ولسن انٹرنیشنل سنٹر میں پاکستانی دانشور سمبل خان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی طرف سے افغان انتخابات سے متعلق سکیورٹی کے اقدامات کرنا اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ اسلام باد میں اس سوچ کو تقویت حاصل ہورہی ہے کہ افغانستان میں امن و استحکام پاکستان کے لیے بھی ضروری ہے۔
’’اسلاآباد کی بدلتی ہوئی پالیسی، کہ ہر طرح سے مدد کرکے افغانستان میں استحکام لایا جائے، اس کو دیکھ کے اب افغان کی بھی سوچ بدل رہی ہے۔ پھر تجارت اور دیگر معاملات میں ایک دوسرے پر اتنا انحصار ہے کہ ضروری ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ مثبت رویہ رکھیں اور ایک قابل عمل تعلق رکھیں۔‘‘
حالیہ دنوں میں افغانستان میں دہشت گردی کے واقعات کے بعد کابل کی طرف سے ایک بار پھر پاکستان پر مداخلت کے الزامات سامنے آئے تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ عسکری اور حکومتی سطح پر رابطوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ قانون سازوں کے وفود کے تبادلوں سے بھی تعلقات میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔
وزیراعظم نواز شریف نے اتوار کو ایک بیان میں اس عزم کا اعادہ کیا کہ اسلام آباد نئی افغان قیادت سے مل کر علاقے میں امن و سکون کے لیے کام کرے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ انتخابات میں افغان عوام کی بڑی تعداد میں شرکت اس بات کی مظہر ہے کہ وہ ملک میں جمہوری نظام کے فروغ کے لیے پرعزم ہیں۔
وزارت خارجہ کی ترجمان نے بھی طالبان شدت پسندوں کی دھمکیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے افغان عوام کے "دلیرانہ انداز" میں انتخاب میں حصہ لینے کی تعریف کی۔
کابل میں پاکستان کے سفیر سید ابرار حسین نے وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد افغانستان میں جمہوری نظام کا حامی ہے۔
’’ہماری کوشش ہوگی کہ ان کی جو بھی نئی قیادت آئے افغانستان کے ساتھ تعلقات بہتر سے بہتر ہوسکیں۔ الیکشن سے پہلے بھی یہاں پوری طرح یقین دہانی کروائی تھی کہ ہم کسی کی طرف نہیں ہیں۔ ہم افغان عوام کے ساتھ ہیں۔ وہ جسے چاہیں منتخب کریں ہمیں تسلیم ہوگا اور ہم اس کے ساتھ مل کر کام کرنے کی کوشش کریں گے۔‘‘
پاکستان پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ افغانستان میں پشتون آبادی کی حمایت کرتے ہوئے اسے مختلف طریقوں سے اقتدار میں لانے کی کوششیں کرتا ہے۔ تاہم پاکستان نے ہمیشہ اس تاثر اور الزام کی تردید کی ہے۔
مبصرین اور پاکستانی قانون سازوں کے مطابق خطے کی سلامتی کی صورتحال اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ پاکستان اور افغانستان میں پایا جانے والا عدم اعتماد کم ہو۔
حزب اختلاف کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر اور قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کے رکن فرحت اللہ بابر کہتے ہیں کہ دونوں ہمسایہ ملکوں کو ماضی میں رہنے کی بجائے ماضی کی تلخیوں اور تجربات سے سبق سیکھتے ہوئے مل کر کام کرنا ہوگا۔
’’یہ سوچ لیا جائے کہ بد ترین صورتحال ہوگی اور وہاں خانہ جنگی شروع ہو جائے اور وہ غیر ملکی فوجوں کو وہاں نا چھوڑیں تو ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ پہلا یہ ہے کہ باڈر منجمینٹ کو بہتر کرنا ہوگا۔ باڈر پر تنازع ہوسکتا ہے منجمینٹ پر نہیں۔ اگر ایسا نا ہوا تو پاکستانی اور افغان طالبان مل کر مضبوط ہوجائیں گے۔ افغان کو بھی نشانہ بنائیں گے اور پاکستان کو بھی۔‘‘
امریکہ کے ووٹ رو ولسن انٹرنیشنل سنٹر میں پاکستانی دانشور سمبل خان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی طرف سے افغان انتخابات سے متعلق سکیورٹی کے اقدامات کرنا اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ اسلام باد میں اس سوچ کو تقویت حاصل ہورہی ہے کہ افغانستان میں امن و استحکام پاکستان کے لیے بھی ضروری ہے۔
’’اسلاآباد کی بدلتی ہوئی پالیسی، کہ ہر طرح سے مدد کرکے افغانستان میں استحکام لایا جائے، اس کو دیکھ کے اب افغان کی بھی سوچ بدل رہی ہے۔ پھر تجارت اور دیگر معاملات میں ایک دوسرے پر اتنا انحصار ہے کہ ضروری ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ مثبت رویہ رکھیں اور ایک قابل عمل تعلق رکھیں۔‘‘
حالیہ دنوں میں افغانستان میں دہشت گردی کے واقعات کے بعد کابل کی طرف سے ایک بار پھر پاکستان پر مداخلت کے الزامات سامنے آئے تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ عسکری اور حکومتی سطح پر رابطوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ قانون سازوں کے وفود کے تبادلوں سے بھی تعلقات میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔