طالبان شدت پسندوں کی دھمکیوں کے باوجود ہفتہ کو ہونے والے انتخابات کے دوسرے مرحلے میں بھی افغان ووٹرز نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور الیکشن کمیشن کے مطابق ایک کروڑ 20 لاکھ میں سے 70 لاکھ سے زائد لوگوں نے حق رائے دہی استعمال کیا۔
اسلام آباد —
پاکستان نے افغان صدارتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے کامیاب انعقاد پر وہاں کی عوام کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ اس سے ناصرف جمہوری انداز میں اقتدار کی منتقلی ممکن ہوگی بلکہ افغانستان میں بڑے پیمانے پر استحکام بھی آئے گا۔
وزارت خارجہ کی طرف سے جاری بیان میں ترجمان کا کہنا تھا کہ ان انتخابات سے ظاہر ہوتا ہے کہ افغان عوام اپنے مستقبل کا فیصلہ جمہوری طریقے سے طے کرنے کے لیے عزم ہیں اور پاکستان نے بھی اس عمل کو یقینی بنانے کے لیے پاک افغان سرحد پر اضافی سیکورٹی کے اقدامات کیے تھے۔
طالبان شدت پسندوں کی دھمکیوں کے باوجود ہفتہ کو ہونے والے انتخابات کے دوسرے مرحلے میں بھی افغان ووٹرز نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور الیکشن کمیشن کے مطابق ایک کروڑ 20 لاکھ میں سے 70 لاکھ سے زائد لوگوں نے حق رائے دہی استعمال کیا۔
دوسرے انتخابی مرحلے کے دوران افغانستان کے مختلف حصوں میں طالبان عسکریت پسندوں کی کارروائیوں میں 31 افراد کے ہلاک ہونے کی اطلاعات ہیں۔ غیر ملکی خبررساں ایجنسیوں کے مطابق جنگجوؤں نے 11 ووٹ ڈالنے والے افراد کی انگلیاں بھی کاٹ دیں۔
کابل میں پاکستان کے سابق سفیر عزیز احمد خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ انتخابات کے موقع پر افغان سیکورٹی فورسز کی کاوشوں کو بھی سراہا جانا ضروری ہے۔
’’اتنے بڑے واقعات نہیں ہوئے اس کا مطلب فورسز سیکورٹی کو یقینی بنانے میں بڑی حد تک کامیاب رہی ہیں اور اس سے اہم بات کہ اتنی بڑی تعداد میں عوام کی شرکت سے وہ طالبان کو ہیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ اس نظام کو جاری رکھنا چاہتے ہیں۔‘‘
کابل کی جانب سے اسلام آباد پر طالبان شدت پسندوں کی مدد کرنے کے الزامات سامنے آتے رہے ہیں تاہم انتخابات کے دوسرے مرحلے سے پہلے دونوں افغان صدارتی امیدوار عبداللہ عبدللہ اور اشرف غنی نے پاکستان سے بہتر تعلقات کا عندیہ دیا تھا۔
تجزیہ نگارعزیز احمد خان کہتے ہیں کہ گزشتہ چند سالوں سے جاری پاکستان کی سفارتکاری کا یہ نتیجہ ہے کہ کابل اس بات پر قائل ہورہا ہے کہ پاکستان کی پالیسی میں تبدیلی آئی ہے۔
’’پاکستان افغانستان کے متعلق ایک بڑی اسپیشل پوزیشن ہے۔ ہماری 26 سو کلومیٹر باڈر، 10 فیصد افغان آبادی پاکستان میں آباد اور 50 ہزار لوگ روزانہ سرحد کراس کرتے ہیں۔ تو اس مین مناسب یہی ہے کہ ان کا ہمارے متعلق رائے درست ہو کہ ہم ان کی بہتری مین مدد کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے پر شدت پسندوں کو پناہ دینے کے الزامات آئے ہیں تاہم سیکورٹی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اسلام آباد اور کابل کی حکمت عملی اور کارروائیوں میں یک سوئی اور اشتراک سے خونریز عسکریت پسندی پر بہتر انداز میں قابو پانا ممکن ہے اور اختلاف شدت پسندوں کے لیے فائدہ مند ہوگا۔
وزارت خارجہ کی طرف سے جاری بیان میں ترجمان کا کہنا تھا کہ ان انتخابات سے ظاہر ہوتا ہے کہ افغان عوام اپنے مستقبل کا فیصلہ جمہوری طریقے سے طے کرنے کے لیے عزم ہیں اور پاکستان نے بھی اس عمل کو یقینی بنانے کے لیے پاک افغان سرحد پر اضافی سیکورٹی کے اقدامات کیے تھے۔
طالبان شدت پسندوں کی دھمکیوں کے باوجود ہفتہ کو ہونے والے انتخابات کے دوسرے مرحلے میں بھی افغان ووٹرز نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور الیکشن کمیشن کے مطابق ایک کروڑ 20 لاکھ میں سے 70 لاکھ سے زائد لوگوں نے حق رائے دہی استعمال کیا۔
دوسرے انتخابی مرحلے کے دوران افغانستان کے مختلف حصوں میں طالبان عسکریت پسندوں کی کارروائیوں میں 31 افراد کے ہلاک ہونے کی اطلاعات ہیں۔ غیر ملکی خبررساں ایجنسیوں کے مطابق جنگجوؤں نے 11 ووٹ ڈالنے والے افراد کی انگلیاں بھی کاٹ دیں۔
کابل میں پاکستان کے سابق سفیر عزیز احمد خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ انتخابات کے موقع پر افغان سیکورٹی فورسز کی کاوشوں کو بھی سراہا جانا ضروری ہے۔
’’اتنے بڑے واقعات نہیں ہوئے اس کا مطلب فورسز سیکورٹی کو یقینی بنانے میں بڑی حد تک کامیاب رہی ہیں اور اس سے اہم بات کہ اتنی بڑی تعداد میں عوام کی شرکت سے وہ طالبان کو ہیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ اس نظام کو جاری رکھنا چاہتے ہیں۔‘‘
کابل کی جانب سے اسلام آباد پر طالبان شدت پسندوں کی مدد کرنے کے الزامات سامنے آتے رہے ہیں تاہم انتخابات کے دوسرے مرحلے سے پہلے دونوں افغان صدارتی امیدوار عبداللہ عبدللہ اور اشرف غنی نے پاکستان سے بہتر تعلقات کا عندیہ دیا تھا۔
تجزیہ نگارعزیز احمد خان کہتے ہیں کہ گزشتہ چند سالوں سے جاری پاکستان کی سفارتکاری کا یہ نتیجہ ہے کہ کابل اس بات پر قائل ہورہا ہے کہ پاکستان کی پالیسی میں تبدیلی آئی ہے۔
’’پاکستان افغانستان کے متعلق ایک بڑی اسپیشل پوزیشن ہے۔ ہماری 26 سو کلومیٹر باڈر، 10 فیصد افغان آبادی پاکستان میں آباد اور 50 ہزار لوگ روزانہ سرحد کراس کرتے ہیں۔ تو اس مین مناسب یہی ہے کہ ان کا ہمارے متعلق رائے درست ہو کہ ہم ان کی بہتری مین مدد کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے پر شدت پسندوں کو پناہ دینے کے الزامات آئے ہیں تاہم سیکورٹی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اسلام آباد اور کابل کی حکمت عملی اور کارروائیوں میں یک سوئی اور اشتراک سے خونریز عسکریت پسندی پر بہتر انداز میں قابو پانا ممکن ہے اور اختلاف شدت پسندوں کے لیے فائدہ مند ہوگا۔