دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ پاکستان کی طرف سے افغان سرحد پر گولہ باری نہیں کی گئی اور فوجی افسران کے دورے کو منسوخ کر کے افغانستان نے ضرورت سے زائد ردعمل کا اظہار کیا ہے۔
اسلام آباد —
پاکستان نے کہا ہے کہ اُس کی سرحدی افواج نے پاک افغان سرحد پر گولہ باری نہیں کی ہے اور اس بنا پر افغان فوجی افسران کے دورہ پاکستان کی منسوخی کا کوئی جواز نہیں۔
دفتر خارجہ کے ترجمان اعزاز احمد چوہدری نے جمعرات کو ہفتہ وار نیوز کانفرنس سے خطاب میں افغانستان کے ردعمل کو ضرورت سے زائد قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستانی فوج کی طرف سے گولہ باری نہیں کی گئی۔
’’ پاکستان کی طرف سے کسی طرح کی گولہ باری نہیں کی گئی۔ ہمارا رد عمل بہت مناسب تھا اور وہ بھی اس لیے کہ دوسری طرف سے دراندازی کی کوشش کی جا رہی تھی۔‘‘
اُن کا کہنا تھا کہ کسی بھی سطح پر رابطے باہمی امن کے فروغ اور اعتماد سازی کا سبب بنتے ہیں اس لیے افغانستان کو اپنے فوجی افسران کو بھیجنے سمیت دیگر سطح کے رابطے جاری رکھنے چاہئیں۔
ترجمان نے کہا کہ پاکستان سمجھتا ہے کہ فوجی افسران کے دورے کو منسوخ کر کے افغانستان نے ضرورت سے زائد ردعمل کا اظہار کیا ہے۔
اُنھوں نے مصالحت کے عمل میں پاکستان کی طرف سے تعاون نا کرنے سے متعلق افغانستان کے الزامات کو بھی مسترد کیا اور کہا کہ اسلام آباد سمجھتا ہے کہ تعاون ہی سے اُن قوتوں کو شکست دی جا سکتی ہے جو امن کے دشمن ہیں۔
’’اُمید ہے کہ دونوں ملک امن کے فروغ کے لیے کسی موقع کو ضائع نہیں ہونے دیں گے۔‘‘
ترجمان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو افغانستان میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں پر تشویش ہے اور اُن کے بقول اسلام آباد اس معاملے کو ہر سطح پر اُٹھا چکا ہے۔
افغان وزرات خارجہ سے بدھ کو جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ افغان نیشنل آرمی کے 11 افسران پر مشتمل ایک ٹیم نے پاکستانی فوج کی دعوت پر کوئٹہ اسٹاف کالج کا دورہ کرنا تھا جسے اب منسوخ کر دیا گیا ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ یہ فیصلہ 25 اور 26 مارچ کو پاک افغان سرحد پر پاکستانی فوج کی طرف سے مبینہ طور پر افغانستان کے سرحدی صوبہ کنڑ پر گولہ باری کے بعد کیا گیا۔
دفتر خارجہ کے ترجمان اعزاز احمد چوہدری نے جمعرات کو ہفتہ وار نیوز کانفرنس سے خطاب میں افغانستان کے ردعمل کو ضرورت سے زائد قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستانی فوج کی طرف سے گولہ باری نہیں کی گئی۔
’’ پاکستان کی طرف سے کسی طرح کی گولہ باری نہیں کی گئی۔ ہمارا رد عمل بہت مناسب تھا اور وہ بھی اس لیے کہ دوسری طرف سے دراندازی کی کوشش کی جا رہی تھی۔‘‘
اُن کا کہنا تھا کہ کسی بھی سطح پر رابطے باہمی امن کے فروغ اور اعتماد سازی کا سبب بنتے ہیں اس لیے افغانستان کو اپنے فوجی افسران کو بھیجنے سمیت دیگر سطح کے رابطے جاری رکھنے چاہئیں۔
ترجمان نے کہا کہ پاکستان سمجھتا ہے کہ فوجی افسران کے دورے کو منسوخ کر کے افغانستان نے ضرورت سے زائد ردعمل کا اظہار کیا ہے۔
اُنھوں نے مصالحت کے عمل میں پاکستان کی طرف سے تعاون نا کرنے سے متعلق افغانستان کے الزامات کو بھی مسترد کیا اور کہا کہ اسلام آباد سمجھتا ہے کہ تعاون ہی سے اُن قوتوں کو شکست دی جا سکتی ہے جو امن کے دشمن ہیں۔
’’اُمید ہے کہ دونوں ملک امن کے فروغ کے لیے کسی موقع کو ضائع نہیں ہونے دیں گے۔‘‘
ترجمان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو افغانستان میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں پر تشویش ہے اور اُن کے بقول اسلام آباد اس معاملے کو ہر سطح پر اُٹھا چکا ہے۔
افغان وزرات خارجہ سے بدھ کو جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ افغان نیشنل آرمی کے 11 افسران پر مشتمل ایک ٹیم نے پاکستانی فوج کی دعوت پر کوئٹہ اسٹاف کالج کا دورہ کرنا تھا جسے اب منسوخ کر دیا گیا ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ یہ فیصلہ 25 اور 26 مارچ کو پاک افغان سرحد پر پاکستانی فوج کی طرف سے مبینہ طور پر افغانستان کے سرحدی صوبہ کنڑ پر گولہ باری کے بعد کیا گیا۔