پاکستانی وزیراعظم نے کہا کہ اعتماد سازی اور ایک دوسرے کے موقف کو سمجھنے کے لیے دونوں ملکوں کے درمیان اس طرح کے وفود کے تبادلے انتہائی اہم ثابت ہوتے ہیں۔
اسلام آباد —
افغانستان کے اراکین پارلیمان کا 18 رکنی وفد ان دنوں پاکستان کے دورے پر ہے جہاں اس نے منگل کو اسلام آباد میں وزیراعظم راجہ پرویز اشرف سے ملاقات کی۔
وزیراعظم پرویز اشرف نے کہا کہ اعتماد سازی اور ایک دوسرے کے موقف کو سمجھنے کے لیے دونوں ملکوں کے درمیان اس طرح کے وفود کے تبادلے انتہائی اہم ثابت ہوتے ہیں۔
وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات درست سمت کی جانب گامزن ہیں اور افغانستان کے امن و استحکام کے لیے اسلام آباد ہر ممکن تعاون جاری رکھے گا۔
ملاقات میں شریک پاکستان کے وزیر مملکت برائے تجارت عباس خان آفریدی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اراکین پارلیمان کے درمیان رابطوں سے عوامی سطح پر مسائل کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔
’’اس طرح کے رابطوں سے ہمارے اور افغانستان کے مسائل حل ہوں گے، جب پارلیمنٹیرین ایک دوسرے سے ملیں تو ہمارے اصل مسئلے دور ہوں گے۔ جو ہمارے اور ان کے عوام کے مسائل ہیں جو ہمارے بارڈر (سرحدی علاقوں) کے جو مسائل ہیں، پارلیمنٹیرین جتنے زیادہ ملیں گے اتنے ہی ہمارے مسائل حل ہوں گے۔‘‘
وزیراعظم ہاؤس سے جاری ہونے والے سرکاری بیان کے مطابق افغان وفد کے اراکین نے بھی دونوں ملکوں کے درمیان صحافیوں، ماہرین تعلیم اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کے وفود کے تبادلے پر زور دیا۔
افغان اراکین پارلیمان کا یہ وفد ایک ایسے وقت اسلام آباد کا دورہ کر رہا ہے جب گزشتہ ہفتے افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے الزام لگایا تھا کہ ان کے ملک کے انٹیلی جنس سروس کے سربراہ اسد اللہ خالد پر حملے کی منصوبہ بندی پاکستان میں کی گئی تھی۔
لیکن پاکستان نے ان الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر کابل حکومت کے پاس قابل عمل شواہد ہیں تو وہ فراہم کیے جائیں۔
وزیراعظم پرویز اشرف نے کہا کہ اعتماد سازی اور ایک دوسرے کے موقف کو سمجھنے کے لیے دونوں ملکوں کے درمیان اس طرح کے وفود کے تبادلے انتہائی اہم ثابت ہوتے ہیں۔
وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات درست سمت کی جانب گامزن ہیں اور افغانستان کے امن و استحکام کے لیے اسلام آباد ہر ممکن تعاون جاری رکھے گا۔
ملاقات میں شریک پاکستان کے وزیر مملکت برائے تجارت عباس خان آفریدی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اراکین پارلیمان کے درمیان رابطوں سے عوامی سطح پر مسائل کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔
’’اس طرح کے رابطوں سے ہمارے اور افغانستان کے مسائل حل ہوں گے، جب پارلیمنٹیرین ایک دوسرے سے ملیں تو ہمارے اصل مسئلے دور ہوں گے۔ جو ہمارے اور ان کے عوام کے مسائل ہیں جو ہمارے بارڈر (سرحدی علاقوں) کے جو مسائل ہیں، پارلیمنٹیرین جتنے زیادہ ملیں گے اتنے ہی ہمارے مسائل حل ہوں گے۔‘‘
وزیراعظم ہاؤس سے جاری ہونے والے سرکاری بیان کے مطابق افغان وفد کے اراکین نے بھی دونوں ملکوں کے درمیان صحافیوں، ماہرین تعلیم اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کے وفود کے تبادلے پر زور دیا۔
افغان اراکین پارلیمان کا یہ وفد ایک ایسے وقت اسلام آباد کا دورہ کر رہا ہے جب گزشتہ ہفتے افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے الزام لگایا تھا کہ ان کے ملک کے انٹیلی جنس سروس کے سربراہ اسد اللہ خالد پر حملے کی منصوبہ بندی پاکستان میں کی گئی تھی۔
لیکن پاکستان نے ان الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر کابل حکومت کے پاس قابل عمل شواہد ہیں تو وہ فراہم کیے جائیں۔