پاکستان نے ایک بار پھر افغانستان پر زور دیا ہے کہ بے بنیاد الزام تراشی کی بجائے دونوں ملکوں کو سلامتی کے امور پر مل بیٹھ کر بات چیت کے ذریعے معاملات طے کرنے کی ضرورت ہے۔
جمعرات کو دفتر خارجہ سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ و قومی سلامتی سرتاج عزیز نے اسلام آباد میں افغانستان کے سفیر جانان موسیٰ زئی سے ملاقات میں حالیہ دنوں میں افغان اداروں اور اعلیٰ عہدیداروں کی طرف سے پاکستان پر دہشت گردی کی کارروائیوں، سرحد پار گولہ باری اور عسکریت پسندی کی کارروائی میں ملوث ہونے کے الزامات کا تذکرہ کرتے ہوئے زور دیا کہ اس بارے میں کوئی ٹھوس شواہد ہوں تو ان کا پاکستان سے تبادلہ کرنا چاہیے۔
سرتاج عزیز نے اپنے ملک کے موقف کو دہراتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا پورے خلوص سے یہ ماننا ہے کہ ایک پرامن، متحد اور مستحکم افغانستان، پاکستان کے مفاد میں ہے۔
پاکستانی عہدیدار کے بقول اس مقصد کے حصول کے لیے دونوں ملکوں کو بد اعتمادی ختم کرتے ہوئے ہم آہنگی کے ساتھ باہمی معاملات کو بامعنی انداز میں دیکھنا چاہیئے۔
افغانستان کی طرف سے ماضی میں بھی پاکستان پر افغان علاقوں میں ہونے والی دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث ہونے اور سرحد پار سے گولہ باری کے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں اور ان دشنام ترازیوں میں حالیہ مہینوں میں ایک بار پھر تیزی دیکھی گئی۔
پاکستان ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے متعدد بار یہ کہہ چکا ہے کہ سرحد پار افغانستان سے شدت پسند اس کے علاقوں میں ہلاکت خیز کارروائیاں کرکے فرار ہو جاتے ہیں اور افغانستان کو ایسے اقدامات کرنے چاہیئں کہ اس کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہو۔
دو ماہ پہلے پاکستانی فوج نے افغان سرحد سے ملحقہ شدت پسندوں کے مضبوط گڑھ شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف بھرپور کارروائی شروع کی تھی جس میں اب تک 600 سے زائد شدت پسندوں کو ہلاک کیا جاچکا ہے جن میں ایک بڑی تعداد غیر ملکی جنگجوؤں کی بھی بتائی جاتی ہے۔
پاکستانی عہدیدار یہ کہتے آئے ہیں کہ اس آپریشن سے راہ فرار اختیار کرنے والے شدت پسند افغان علاقوں میں جاسکتے ہیں جس کے لیے کابل کو سرحد پر اپنی جانب نگرانی کے ٹھوس اور موثر انتظامات کرنے چاہیئں۔
جمعرات کو سرتاج عزیز نے بھی افغان سفیر موسیٰ زئی سے گفتگو میں اس بات کو دہراتے ہوئے کہا کہ دونوں ملکوں کو سلامتی کے امور اور سرحدی نگرانی کی باہمی حکمت عملی پر عمل کرنا ہوگا۔