گزشتہ ہفتے مولوی فقیر کو پاک افغان سرحد کے قریب افغانستان کے صوبہ ننگرہار سے افغان سکیورٹی فورسز نے گرفتار کیا تھا۔
اسلام آباد —
وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک نے کہا ہے کہ افغانستان میں زیر حراست پاکستانی طالبان کمانڈر مولوی فقیر محمد کی پاکستان کو حوالگی کے لیے انٹر پول سے رجوع کیا جائے گا۔
اسلام آباد میں ہفتے کو ایک تقریب کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ حکومت پاکستان کی طرف سے مولوی فقیر محمد کی حوالگی سے متعلق درخواست کے باوجود افغان حکومت سے انٹرپول کے ذریعے بھی رابطہ کیا جائے گا تاکہ شدت پسند کمانڈر کے خلاف پاکستان کے قانون کے تحت کارروائی کی جائے۔
’’انٹر پول کے ذریعے ہم افغان حکومت کو قائل کرنے کی کوشش کریں گے کہ مولوی فقیر ہمارے یہاں بہت ساری جانوں کے زیاں کا ذمہ دار ہے اور بہت سارے جرائم میں ملوث بھی ہے لہذا اسے ہمارے حوالے کیا جائے۔‘‘
رحمان ملک کا بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا جب حال ہی میں ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق کابل نے اسلام آباد کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کی طالبان کمانڈر کو پاکستان کے حوالے کرنے سے انکار کیا ہے۔
گزشتہ ہفتے مولوی فقیر کو پاک افغان سرحد کے قریب افغانستان کے صوبہ ننگرہار سے افغان سکیورٹی فورسز نے گرفتار کیا تھا۔
قبائلی علاقے باجوڑ میں مولوی فقیر تحریک طالبان پاکستان کا کمانڈر تھا اور اس علاقے میں دہشت گردوں کے خلاف فوجی کارروائی کے بعد وہ افغانستان فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا جہاں سے اطلاعات کے مطابق وہ پاکستانی علاقوں میں پرتشدد کارروائیوں کی منصوبہ بندی کرتا رہا ہے۔
شدت پسندوں کے مذاکرات سے متعلق رویے کو ’’غیر سنجیدہ‘‘ قرار دیتے ہوئے، وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک نے کہا کہ طالبان لیڈر حکیم اللہ محسود اور ولی اللہ اگر ہتھیار پھینک دیں اور خود کو حکومت کے حوالے کر دیں تو انہیں ملک کے قانون کے تحت معاف کیا جائے گا۔
’’اگر وہ مذاکرات سے متعلق سنجیدہ ہیں تو کل ہی مذاکراتی ٹیم کا اعلان کریں اور کیا بہتر ہو کہ وہ کہیں کہ ہم نے تشدد کا راستہ ترک کر دیا۔‘‘
تحریک طالبان پاکستان نے حکومت کو مذاکرات کی مشروط پیش کش کر رکھی ہے اور حزب اختلاف کے رہنما میاں نواز شریف، مولانا فضل الرحمان اور منور حسن کو بطور ضامن بننے کی درخواست کی ہے جسے ان تمام سیاسی رہنماؤں نے رد کر دیا ہے۔
حزب اختلاف پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف اور صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے لاہور میں بظاہر فرقہ واریت کا نشانہ بننے والے سینیئر ڈاکٹر کے اہل خانہ سے ملاقات کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں اس تاثر کو مخالفین کا پراپیگنڈہ قرار دے کر رد کیا کہ حکومت پنجاب سیاسی مصلحتوں کے پیش نظر صوبے میں موجود فرقہ واریت میں ملوث تنظیموں کے خلاف کارروائی نہیں کرتی۔
تاہم وفاقی وزیر داخلہ کی طرف سے کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی کے خلاف کارروائی کے مطالبے پر شہباز شریف کا کہنا تھا۔ ’’پنجاب میں ایک قانونی و آئینی حکومت ہے اور ہم اپنی آئینی ذمہ داری پوری کررہے ہیں۔‘‘
لشکر جھنگوی ملک میں شیعہ برادری کے خلاف مہلک کارروائی میں ملوث رہی ہے اور حال ہی میں اس تنظیم نے کوئٹہ شہر میں شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والی ہزارہ برادری پر حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ جس میں 90 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ گزشتہ روز پنجاب حکومت نے نقص امن کے قانون کے تحت لشکر جھنگوی کے بانی رہنما کو زیر حراست لیا ہے۔
اسلام آباد میں ہفتے کو ایک تقریب کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ حکومت پاکستان کی طرف سے مولوی فقیر محمد کی حوالگی سے متعلق درخواست کے باوجود افغان حکومت سے انٹرپول کے ذریعے بھی رابطہ کیا جائے گا تاکہ شدت پسند کمانڈر کے خلاف پاکستان کے قانون کے تحت کارروائی کی جائے۔
’’انٹر پول کے ذریعے ہم افغان حکومت کو قائل کرنے کی کوشش کریں گے کہ مولوی فقیر ہمارے یہاں بہت ساری جانوں کے زیاں کا ذمہ دار ہے اور بہت سارے جرائم میں ملوث بھی ہے لہذا اسے ہمارے حوالے کیا جائے۔‘‘
رحمان ملک کا بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا جب حال ہی میں ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق کابل نے اسلام آباد کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کی طالبان کمانڈر کو پاکستان کے حوالے کرنے سے انکار کیا ہے۔
گزشتہ ہفتے مولوی فقیر کو پاک افغان سرحد کے قریب افغانستان کے صوبہ ننگرہار سے افغان سکیورٹی فورسز نے گرفتار کیا تھا۔
قبائلی علاقے باجوڑ میں مولوی فقیر تحریک طالبان پاکستان کا کمانڈر تھا اور اس علاقے میں دہشت گردوں کے خلاف فوجی کارروائی کے بعد وہ افغانستان فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا جہاں سے اطلاعات کے مطابق وہ پاکستانی علاقوں میں پرتشدد کارروائیوں کی منصوبہ بندی کرتا رہا ہے۔
شدت پسندوں کے مذاکرات سے متعلق رویے کو ’’غیر سنجیدہ‘‘ قرار دیتے ہوئے، وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک نے کہا کہ طالبان لیڈر حکیم اللہ محسود اور ولی اللہ اگر ہتھیار پھینک دیں اور خود کو حکومت کے حوالے کر دیں تو انہیں ملک کے قانون کے تحت معاف کیا جائے گا۔
’’اگر وہ مذاکرات سے متعلق سنجیدہ ہیں تو کل ہی مذاکراتی ٹیم کا اعلان کریں اور کیا بہتر ہو کہ وہ کہیں کہ ہم نے تشدد کا راستہ ترک کر دیا۔‘‘
تحریک طالبان پاکستان نے حکومت کو مذاکرات کی مشروط پیش کش کر رکھی ہے اور حزب اختلاف کے رہنما میاں نواز شریف، مولانا فضل الرحمان اور منور حسن کو بطور ضامن بننے کی درخواست کی ہے جسے ان تمام سیاسی رہنماؤں نے رد کر دیا ہے۔
حزب اختلاف پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف اور صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے لاہور میں بظاہر فرقہ واریت کا نشانہ بننے والے سینیئر ڈاکٹر کے اہل خانہ سے ملاقات کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں اس تاثر کو مخالفین کا پراپیگنڈہ قرار دے کر رد کیا کہ حکومت پنجاب سیاسی مصلحتوں کے پیش نظر صوبے میں موجود فرقہ واریت میں ملوث تنظیموں کے خلاف کارروائی نہیں کرتی۔
تاہم وفاقی وزیر داخلہ کی طرف سے کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی کے خلاف کارروائی کے مطالبے پر شہباز شریف کا کہنا تھا۔ ’’پنجاب میں ایک قانونی و آئینی حکومت ہے اور ہم اپنی آئینی ذمہ داری پوری کررہے ہیں۔‘‘
لشکر جھنگوی ملک میں شیعہ برادری کے خلاف مہلک کارروائی میں ملوث رہی ہے اور حال ہی میں اس تنظیم نے کوئٹہ شہر میں شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والی ہزارہ برادری پر حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ جس میں 90 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ گزشتہ روز پنجاب حکومت نے نقص امن کے قانون کے تحت لشکر جھنگوی کے بانی رہنما کو زیر حراست لیا ہے۔