ایسے میں جب افغانستان کے معاشی حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں، زر مبادلہ کے ذخائر تقریباً ختم ہو رہے ہیں اور عالمی مالیاتی اداروں نے بھی انکی امداد اور قرضوں کو فی الوقت روک رکھا ہے،پاکستان نے افغانستان کے ساتھ ڈالر کے بجائے روپے میں تجارت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اسلام آباد میں ایک پارلیمانی کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا افغانستان کو ڈالر کی کمی کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ افغانستان کے زر مبادلہ کے دس ارب ڈالر کے قریب روک لئے گئے ہیں۔ چنانچہ، پاکستان نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ افغانستان کے ساتھ ڈالر کے بجائے، جس کی وہاں شدید قلت ہے، روپے میں تجارت کی جائے گی۔
ڈاکٹر ایوب مہر ایک ماہر معاشیات اور فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق ڈائرکٹر جنرل ہیں۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ طالبان کے افغانستان میں اقتدار سنبھالنے کے بعد تقریباً تمام عالمی مالیاتی اداروں نے فی الحال ان کے قرضے اور امداد دونوں روک دی ہییں جس سےافغانستان کو ڈالر اور بین الاقوامی کرنسی کی یقینی قلت کا سامنا ہو گا۔
انھوں نے کہا کہ افغانستان پاکستان کا تیسرا بڑا ٹریڈ پارٹنر ہے۔ لیکن اب جبکہ وہاں ڈالر کی قلت ہو گی اور پاکستان سے وہ جو تجارت ڈالر میں کرتے تھے اس کے لئے اب انکے پاس ڈالر نہیں ہوں گے۔پاکستان نے انہیں یہ سہولت فرایم کی ہے کہ وہ روپے میں تجارت کر سکتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
ڈاکٹر ایوب مہر نےکہا کہ اس کا ایک بڑا اثر یہ ہو گا کہ مارکٹ میں پاکستانی روپے کی مِانگ بڑھ جائے گی اور روپے کی قدر میں جو کمی ہو رہی تھی وہ شاید رک جائے اور اس کی قدر پر مثبت اثر پڑے، دوسری جانب افغانستان کو جو مسائل ڈالر کی کمی کے باعث پیش آسکتے تھے وہ پیش نہیں آئیں گے۔ اور یہ ایک قلیل المدت مسئلہ ہو گا، لیکن اس کے دونوں ملکوں پرطویل المدت اثرات ہوں گے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس کے لئے افغانستان کو پاکستانی روپے کی ضرورت پڑے گی اور انکے پاس دو راستے ہوں گے۔ اوّل یہ کہ اپنا جو مال دوسرے ملکوں کو بیچتے ہیں وہ اب پاکستان کو زیادہ فروخت کریں تاکہ ان کے پاس زیادہ پاکستانی روپے آ سکیں جن سے وہ پاکستان کے ساتھ تجارت کرسکیں، ورنہ ان کو کرنسی کی بین الاقوامی منڈی سے پاکستانی روپیہ خریدنا پڑےگا یا پھر پاکستان سے قرض لینا پڑے گا۔
انکا کہنا تھا کہ اس کی وجہ سے بطور خاص پاکستان کی برآمدات میں اضافہ نہیں ہو گا، بلکہ اسلئے ہو گا کہ افغانستان سے تعلقات بہتری کی طرف جا رہے ہیں اور پہلے جو زیادہ تر تجارت بھارت کی افغانستان کے ساتھ ہوتی تھی وہ اب پاکستان کے ساتھ ہونے لگے گی۔ اسلئے تجارت بڑھے گی اور روپے میں تجارت کی پیشکش کرکے پاکستان نے اس رکاوٹ کو جو تجارت بڑھنے کی راہ میں ڈالر کی کمی کی وجہ سے حائل ہو سکتی تھی دور کر دی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
زبیر موتی والا پاکستان-افغانستان جوائنٹ چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سربراہ ہیں۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ ایک عارضی لیکن بہت مثبت اقدام ہے، کیونکہ سارا سامان تجارت اس لئے رکا ہوا ہے کہ وہاں سارے بینکنگ چینلز بند ہیں۔ کہیں اکاؤنٹس کو منجمد کردیا گیا ہے؛ چنانچہ ہم نے حکومت سے کہا کہ اس کے سلسلے میں کوئی عبوری انتظام ہونا چاہئے تاکہ سامان تجارت افغانستان پہنچنا شروع ہو جائے اور وہاں کے لوگوں کی ضرورتیں بھی پوری ہونا شروع ہو جائیں اور سامان تجارت ضائع بھی نہ ہو۔
بقول ان کے،اس لئے یہ ایک عبوری بندو بست ہے جو حکومت پاکستان نے کیا ہے۔ اس سے افغانستان کی نئی انتظامیہ کو بھی فائدہ پہنچے گا اور رکی ہوئی تجارت بھی دوبارہ شروع ہو جائے گی۔
ایک سوال کےجواب میں انکا کہنا تھا کہ ہرچند کہ یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہے لیکن انکا خیال ہے کہ اب پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت نہ صرف اس سطح پر آجائے گی، جتنی بقول ان کے، وہاں بھارت کا اثر و رسوخ بڑھنے سے قبل تھی، بلکہ اس سے بھی آگے نکل سکتی ہے۔
انکا کہنا تھا کہ فوری طور پر دونوں ملکوں کےدرمیان تجارت میں بھاری اضافہ نظر آئے گا، لیکن آئندہ کا انحصاردونوں ملکوں کے درمیان تعلقات اور دونوں حکومتوں کے رویوں پر ہو گا۔